|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع لسبیلہ، خضدار، آواران اورکیچ میں سیلابی صورتحال بارشیں تھمنے کے بعدقابو میں آگئی۔ ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ کم ہوگیا تاہم لسبیلہ میں چار افراد ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہوگئے جن میں سے تین کی لاشیں نکال لی گئیں۔ 

سیلابی ریلوں میں پھنسے 250سے زائد افراد کو بچالیا گیاتاہم لسبیلہ اور کیچ میں بعض مقامات پر اب بھی لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنہیں بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔سیلاب سے سینکڑوں مال مویشی ہلاک جبکہ ٹماٹراور گندم سمیت ہزاروں ایکڑ پر کھڑی کروڑوں روپے مالیت کی فصلیں، ٹیوب ویل اور زرعی مشنری تباہ ہوگئی۔ 

پا ک فوج، ایف سی ، کوسٹ کارڈ، پولیس ، لیویز اور دیگر متعلقہ اداروں کی مدد سے ریسکیو آپریشن تقریباً مکمل کرلیا گیا تاہم لسبیلہ میں ریسکیو آپریشن آج بھی جاری رہے گا۔ کوئٹہ کراچی، کراچی گوادر اور گوادر تربت شاہراہ ٹریفک کیلئے بحال کردی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں کا عمل تیز کردیا گیا ہے۔

پاک فوج اور صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ کوئٹہ سے25ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامانہ متاثرہ علاقوں کیلئے روانہ کردیا گیا۔محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان میں بارشوں اور برفباری کا حالیہ سلسلہ رک گیا ہے۔موسم خشک اور سرد ہوگیا ہے۔ 

بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سب سے زیادہ بارش خضدار میں 41 ملی میٹر اور لسبیلہ میں 28 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔سبی میں21،بارکھان 20اورتربت اور کوئٹہ میں 18 ،قلات15، گودار،اورماڑہ 13،ژوب12 اورزیارت میں 11 ملی میٹربارش ہوئی۔ دالبنبدین 4، پسنی 3، نوکنڈی 2اورپنجگور میں ایک ملی میٹر بارش ہوئی۔زیارت،کان مہترزئی،توبہ اچکزئی،توبہ کاکڑی،چھپر لفٹ اور ہربوئی میں برفباری ہوئی۔زیارت میں چار انچ برفباری ریکارڈ کی گئی۔

موسلا دھار بارشوں اور اس کے بعد آنے والے سیلابی ریلوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی سے بڑے پیمانے پر نشیبی علاقے آب آگئے تھے جبکہ بعض علاقوں میں سیلابی پانی گھروں تک میں داخل ہوگیا جس کی وجہ سے لوگوں نے فوری نقل مکانی کر کے اپنی جان بچائی۔بعض لوگوں نے مکانات کی چھتوں اور درختوں پر چڑھ کر اپنی جانیں بچائیں ۔ترجمان صوبائی حکومت کے مطابق بارش سے سب سے زیادہ لسبیلہ، خضدار، آواران اور کیچ کے اضلاع متاثر ہوئے ۔

متاثرین کیلئے خوراک اور امدادی سامان روانہ کر دیا گیا ہے۔ بارشوں کے باعث بند ہونیوالی سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بحال کردیا گیا۔ صوبائی حکومت اور پاک فوج کے چار ہیلی کاپٹر بھی آج صبح سے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔

بارشوں سے سب سے زیادہ نقصان ضلع لسبیلہ میں ہوا ہے جہاں ڈپٹی کمشنر لسبیلہ شبیر احمد مینگل کے مطابق 2005ء کے بعد پہلی بار لسبیلہ میں اس شدت کا سیلاب آیا ہے جس سے بیس کے قریب دیہات اور پانچ ہزارافراد متاثر ہوئے ہیں۔اب صورتحال خطرے سے باہر اور سنبھل گئی ہے۔ 

مقامی صحافیوں کے مطابق سیلابی ریلہ اتنا شدید تھا آر سی ڈی شاہرہ کی بڑی ندیوں کھانٹرا ندی اور لنڈا ڈھورا کے پلوں کے اوپر سے پانی گزر رہا تھا جس کی وجہ سے آر سی ڈی شاہرہ پر ٹریفک معطل ہو کر رہ گئی ۔ 

اطلاع ملتے ہی کمشنر قلات ڈویژن بشیر احمد بنگلزئی ، ایڈیشنل کمشنر قلات ڈویژن امیر فضل اویسی، ایس ایس پی لسبیلہ آغا رمضان علی، اے ایس پی حب نوید عالم ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر لسبیلہ عزت نذیر بلوچ نے ناریل فام میں سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے 10افراد اور موضع کنڈیارو میں تقریباََ 40افراد کو پولیس، لیویز، لسبیلہ ویلفیئر ٹرسٹ اور ایدھی کے رضاکاروں نے ریسکیو کر کے محفوظ مکامات پر پہنچا دیا ۔

اوتھل کے نواحی علاقوں بشوانی گوٹھ ،موضع گپ کوری،موضع مکہ، لاکھا گوٹھ ، پیر گوٹھ ، دریسانی گوٹھ، گلانی گوٹھ، ابو ہوٹل کے علاقہ ریٹا لڑا میں ناکو قادری گوٹھ شدید سیلابی پانی کے لپیٹ میں رہے ۔ لوگوں نے درختوں پر اورمکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر اپنی جانیں بچائیں ۔ 

سینکڑوں مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے۔سینکڑوں ایکڑ پرکھڑی فصلات تباہ وہ گئی۔ کچے مکانات منہدم ہو گئے ۔ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ شبیر احمد مینگل نے ضلع بھر میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی تفصیلی رپورٹ مرتب کرنے کے لئے تمام اسسٹنٹ کمشنر وں ، تحصیلداروں کو ہدایت کر دی ہے کہ فوری طور پر رپورٹ تیا کی جائے ۔

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ شبیر مینگل کا کہنا ہے کہ لسبیلہ میں سیلابی صورتحال کے باعث ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ ضلعی انتظامیہ کے علاوہ پاک فوج اورنیم فوجی اداروں ایف سی اور کوسٹ گارڈ کو مدد کیلئے طلب کیا گیا۔محکمہ موسمیات کے مطابق لسبیلہ میں 60 سے 70 ملی میٹر موسلا دھار بارش ہوئی جو سیلابی صورتحال کی کیفیت پیدا ہونے کا سبب بنی۔ بارش کا سلسلہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تقریباً تین بجے بند ہوگیا۔

بارش تھمنے کے بعد ندیوں میں پانی کا دباؤ کم ہوگیا اور آبادی والے علاقوں میں جمع ہونیوالا پانی بھی نکل گیا۔ ڈپٹی کمشنر لسبیلہ شبیر مینگل نے بتایا کہ لسبیلہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اوتھل اور بیلہ میں 250سے زائد افراد سیلابی ریلوں میں پھنسے جنہیں لیویز، پولیس، ایف سی، کوسٹ گارڈ ، ایدھی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی مدد سے ریسکیو کرلیا گیا تاہم بدھ کی شب کو اوتھل کے قریب کانٹا ندی میں سیلابی ریلے میں گدھا گاڑی بہہ گئی جس میں 4مزدور سوار تھے۔ 

چاروں افراد پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ ان کی شناخت سلیمان ولد عمر خاصخیلی ، شیر محمد ولد فقیر محمد خاصخیلی، پنوں ولد جمن اور محمد عمر ولد داؤد کے نام سے ہوئی۔ان میں تین افراد کی لاشیں نکال لی گئیں تاہم شیر محمد نامی شخص کی تلاش اب تک جاری ہے۔ پانی جمع ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہونیوالوں کی تدفین بھی مشکلات پیش آئی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں کوسٹ گارڈ بھی کشتیوں کے ہمراہ شریک ہیں جبکہ پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں سے علاقے کا فضائی جائزہ لیاگیا۔ انہوں نے بتایا کہ بیلہ اور اوتھل کے بیس کے قریب دیہات اور محلے سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ 

بارش تھمنے کے بعد خطرہ ٹل گیا ہے تاہم میدانی علاقوں میں اب تک بھی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے پانی جمع ہے جس سے کیچڑ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور ان علاقوں تک گاڑیوں میں رسائی مشکل ہوگئی ہے۔ ان علاقوں تک رسائی کیلئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جائیگا۔

پانی جمع ہونے سے کچے مکانات کو بھی نقصان پہنچاہے اور لوگ بے گھر بھی ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سیلابی ریلوں میں بہہ کر سینکڑوں کی تعداد میں مال مویشی ہلاک ہوگئے جبکہ دو ہزار ایکڑ کے لگ بھگ رقبے پر کھڑی فصلوں خاص کر ٹماٹر اور گندم کی کاشت کو نقصان پہنچا ہے۔پورالی ندی کے قریبی علاقوں میں زمینداروں نے نالیوں میں بھی کاشت کاری کر رکھی تھی اور ٹیوب ویل لگائے تھے جو سیلابی ریلوں میں تباہ ہوگئے ہیں۔

شبیر مینگل نے بتایا کہ ایک اندازے کے مطابق زمینداروں کو پہنچنے والا نقصان کروڑوں روپے کا ہے۔ ان کے ٹیوب ویل، شمسی توانائی اور دیگر مشنری بھی تباہ ہوگئی ہیں۔ سیلاب سے متاثر ہونیوالوں میں خواتین، بچوں اور بزرگ بھی شامل ہیں جنہیں اس وقت خوراک اور خیموں کی ضرورت ہے۔ بعض مقامات پر اب بھی لوگ پھنسے ہوئے ہیں جنہیں ریسکیو کرنے کیلئے جمعہ کو بھی آپریشن جاری رکھا جائیگا۔ ریسکیو آپریشن کے ساتھ ساتھ جمعہ کو ریلیف آپریشن بھی شروع کیاجائیگا۔ 

پی ڈی ایم اے کی جانب سے پانچ ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان مل گیا ہے جن علاقوں تک رسائی نہیں ہے وہاں پاک فوج اور صوبائی حکومت کے فراہم کردہ دوہیلی کاپٹر وں کے ذریعے خوراکی اور امدادی سامان پھینکا جائیگا۔متاثرین میں پکا ہوا کھانا بھی تقسیم کیا جائیگا۔ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ صورتحال بہتر ہونے کے بعد متاثرہ علاقوں میں نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے سروے کرایا جائے گا۔ 

ادھر کمشنر قلات ڈویژن بشیر احمد بنگلزئی نے ٹیلیفون پر بتایا کہ بارشوں کے بعد پیدا ہونیوالی ہنگامی صورتحال اب قابو میں ہے۔ بارشوں کے سبب کئی گھنٹوں تک بند رہنے والی کوئٹہ کراچی شاہراہ اورتربت گوادر کراچی شاہراہ پر ٹریفک بحال کردی گئی ہے۔ خضدار کے علاقے کرخ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہونیوالی ایم 8 خضدار شہداد کوٹ شاہراہ بھی آمدروفت کیلئے بحال کردی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ لسبیلہ سے ملحقہ خضدار کے علاقے آڑینجی بھی سیلابی ریلوں سے متاثر ہوا ہے وہاں بڑے پیمانے پر فصلوں اور مال مویشی کو نقصان ہوا ہے۔ علاقے تک زمینی رسائی بھی اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ اس علاقے تک رسائی حاصل کرکے محکمہ حیوانات کے ساتھ ملکر ایک کیمپ لگایا جائے۔ اس سلسلے میں صوبائی سیکریٹری حیوانات ماہرین کی ٹیم اور سامان لیکر خضدار پہنچ رہے ہیں ہم کیمپ لگا کر بچ جانیوالے جانوروں کو چارہ بھی فراہم کرینگے کیونکہ بارشوں کے سبب جانوروں کیلئے خوراک کا بندوبست کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ 

کمشنر نے بتایا کہ انہوں نے ڈپٹی کمشنر خضدار میجر ر محمد الیاس کبزئی،ایڈیشنل کمشنر امیر افضل اویسی،اے ڈی سی خضدار عبدالقدوس اچکزئی نے وہیر ہاؤس خضدار کا دورہ کیا اورپی ڈی ایم اے کی طرف سے فراہم کردہ سامان کا معائنہ کیا۔ سارونا،کشاری،کنجڑماڑی،سمیت مختلف مقامات پر سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے امدادی سامان روانہ کردیا گیا ہے۔کمشنر قلات ڈویژن نے بتایا کہ آواران میں بھی بارشوں سے نقصان ہوا ہے۔ ضلع کا مواصلاتی رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے۔

کل صرف ایک بار ڈپٹی کمشنر آواران نے سیٹلائٹ فون پر رابطہ کرکے بتایا تھا کہ مالار ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پرعلاقہ زیرآب آگیا ہے جس سے مال مویشیوں اور فصلوں کو نقصان ہوا ہے تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ جمعہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے آواران کا جائزہ لیا جائے کیونکہ وہاں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہورہا۔

لسبیلہ اور خضدار کے پہاڑی علاقوں میں حالیہ بارشوں سے حب ڈیم میں پانی کے ریلے آنا شروع ہوگئی جس سے ڈیم میں پانی کی سطح 300فٹ سے بلند ہوگئی ہے ۔ 24ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط اس ڈیم سے کراچی کے ضلع غربی کو پمپنگ اسٹیشنز سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ خشک سالی کے نتیجے میں گزشتہ کچھ عرصے سے حب ڈیم میں پانی کی حد صرف ایک فٹ رہ گئی تھی اور وہاں سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند تھی۔

محکمہ آبپاشی کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم میں جمع ہونیوالے ذخیرہ سے کراچی کے ضلع غربی کو چھ ماہ تک پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ گوادر میں بھی حالیہ بارشوں سے خشک سالی ختم ہوگئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم کا کہنا ہے کہ گوادر کا آنکاڑہ، شادی کور ڈیم بھرگئے ہیں جبکہ سواد ڈیم بھی آدھے سے زائد بھر گیا ہے ۔

پانی کا یہ ذخیرہ گوادر اور ملحقہ علاقوں کی دو سال کی ضروریات کیلئے کافی ہے۔ یاد رہے کہ گوادر میں خشک سالی کے سبب تمام ڈیم خشک ہوگئے تھے اور گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹینکروں کے ذریعے شہر کے مکینوں کو پانی کی فراہمی پر ڈیڑھ سے دو ارب روپے خرچ کئے گئے۔

کیچ میں برساتی نالے پر قائم پل گرنیکی وجہ سے آبسر کا باقی علاقوں سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ گوادر اور تربت کا زمینی رابطہ بھی متاثرہے ۔کیچ کے علاقے ڈگاری کہن کے مقام پر کیچ ندی میں دو دلہوں سمیت 5افراد سیلابی ریلے میں کئی گھنٹوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک دلہاکراچی اور دوسرا ڈگاری کہن تربت کے ریائشی بتایاجاتاہے۔ پھنسے ہوئے افراد کے اہلخانہ انتہائی پریشان ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ریسکیوٹیم پھنسیافرادکوبچانیکی کوشش کررہی ہے۔ ڈپٹی کمشنرکیچ میجر(ر)بشیراحمد جائیوقوعہ پر موجود ہیں اور ریسکیو عمل کی نگرانی کررہے ہیں۔ 

ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر احمد کا کہنا ہے کہ حالیہ بارشوں سے باغات اور مال مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جبکہ بعض مقامات پر راستے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ادھر مکران کوسٹل ہائی وے پر اورماڑہ کے قریب بسول ندی پل کو نقصان پہنچنے سے گوادر سے کراچی آمدورفت بھی کئی گھنٹوں تک معطل رہی۔ ڈپٹی کمشنر گوادر کا کہنا ہے کہ اب رابطہ بحال کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب شمالی بلوچستان میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ تھم گیا ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ بھی کم ہوگیا ہے۔ 

سیلابی ریلے سے رابطہ سڑکوں کو شدید نقصان پہنچاہے۔ قلعہ عبداللہ میں کوژک ٹاپ شاہراہ پرشدید برفباری سے چمن کوئٹہ شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہوگئی جس کی وجہ سے چمن کا ملک بھر سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا تھا۔ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ شفقت انور شاہوانی کے مطابق کوژک ٹاپ شاہراہ سے برف ہٹانے کا کام جاری ہے جس کے بعد کوژک ٹاپ شاہراہ کو چھوٹی گاڑیوں کی آمدروفت کیلئے بحال کردیا گیا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ شدید بارشوں اور برفباری کے پیش نظر ضلع بھر میں الرٹ پہلے ہی جاری کیا جاچکا ہے۔وادی زیارت، توبہ اچکزئی، توبہ کاکڑی اور کان مہترزئی میں برفباری کے بعد برف ہٹا کر آمد و رفت کی بحالی کی گئی۔ بعض علاقوں تک اب بھی رسائی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ صوبائی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بارشوں اور برفباری کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کئے گئے۔

پی ڈی ایم اے کو ہائی الرٹ کر کرکے پی ڈی ایم اے کے تمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔صورتحال سے نمٹنے کیلئے وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کوئٹہ میں بھی کنٹرول روم قائم کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اپنا تین روزہ دورہ لسبیلہ ملتوی کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو بلوچستان بھر میں ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کو تیز کرنے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے پی ڈی ایم اے کا دورہ بھی کیا اور امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔