|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2019

عجب غضب کی کہانیاں جنم لیتی ہیں ایسی کہانیاں بے سر و پا معاشرے میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر خودداری کے ہاتھوں مجبور یہ کہانیاں کسی کے سامنے سوال نہیں کرتیں بلکہ خودداری ان سے سوال کرتی رہتی ہے سوال در سوال کرتی رہتی ہے مگر انسان ہے کہ مجبور اپنی فطرت اور حالات کے آگے کبھی گھٹنے ٹیک ہی دیتی ہے۔ بس پھر کیا ہے کہ خودداری سوال کرنا چھوڑ دیتی ہے آدمی خودداری سے سوال کرنا شروع کر دیتا ہے۔یہ سوال وہ سوال مگر جواب گمشدہِ خاک۔ کہاں تلاش کریں۔ 

دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوا کوئی شخص نظر آتا ہے تو سوچتا ہوں کیا وجود ان سے سوال نہیں کرتا یا خودداری کا بوجھ اتار چکے ہیں یا بھوک کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ خودداری کالبادہ آدمی کہیں پھینک آیا ہے۔ ایک بھکاری سے پوچھا گیا کہ بھئی آغاز کیسے کیا۔ تو کہنے لگے کہ شروعات میں بہت گراں گزری تھی سوال زبان پر آتے آتے حلق میں اٹک جاتا تھا اس کے بعد ایسی روانی آگئی کہ فرفر بولتا ہوں اور بولتا ہی چلا جاتا ہوں لہجہ کیسے تبدیل کرنا ہے لوگوں کو کس طرح قائل کرنا ہے بہروپ بدلنا بخوبی آتا ہے بس سوال پہ سوال کرتے جانا ہے اور خودداری کا قلع قمع کرتے جانا ہے۔

ہماری سوسائٹی کو بھکاری پن یا خیرات لینے کی ایسی لت لگ چکی ہے کہ جسمانی طور پر تندرست ہوتے ہوئے بھی بھیک مانگنے سے ذرا بھر بھی نہیں کتراتے ،جدھر بھی دیکھو ہاتھ پھیلائے نظر آتے ہیں سوال کرو تو جواب آتا ہے کہ کام ملتا ہی نہیں۔ اب کام نہیں ملتا یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید ریاست کے پاس بھی نہ ہو اگرہو بھی تو کیسے جواب دے ۔ المیہ ہے کہ ریاست اپنی جوانی سے لے کر بڑھاپے تک جتنی بہاریں دیکھ چکا ہے اب تک اس نے بھی اپنا کچکول بیرونِ ممالک کے سامنے پھیلا کر ہی صدا لگائی ہے۔ میرا تو خیال ہے بھکاری پن کو قومی پیشہ قرار دیا جائے تو کیا مضائقہ بلکہ اس سے ان لوگوں کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا جن بیچاروں نے خودداری کا بوجھ دماغ پر بٹھا کر اپنی زندگی اجیرن بنا لی ہے۔

سوشل میڈیا دیکھتے ہیں تصویریں اور خبریں گردش کرتی رہتی ہیں لوگوں کے تبصرے اور تنقید چلتے رہتے ہیں۔ ایک تصویر نظر سے گزری کہ بلوچ گلوکار ایک آرٹسٹ کی بیوہ کو امدادی رقم دے رہا ہے۔ اس پر جہاں گلوکار کو شاباشی دی جا رہی ہے وہیں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح مصنف اور ڈرامہ نگار انور سجاد کی بیماری اور کسمپرسی پر سوشل میڈیا پر اٹھنے والی خبروں پر ادبی حلقے ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں کہ مصنف کی کسمپرسی کی تصویر اچال کر ان کی خودداری سے نہ کھیلا جائے۔ لیکن سوشل میڈیا کی تو اپنی دنیا ہے۔ حقیقت سے باخبر یا بے خبر بس جٹ جاتی ہے۔ کیا کریں جو تربیت مقتدر حلقوں نے دی ہے اب اس پر عمل پیرا ہونا ہی ہونا ہے۔

میری نظرسے کئی تصویریں ایسی بھی گزری ہیں کہ جنہوں نے خودداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ جسمانی معذوری کو انہوں نے کبھی بھی ذہنی معذوری نہیں بنائی اور نہ ہی کبھی بھیک کا سہارا لیا۔ گزشتہ دنوں بی بی سی پہ چلنے والی ایک ویڈیو نے اپنی جانب توجہ مبذول کرائی کہ 33سالہ کتھک ڈانسر سیتا سبیدی ایک ہی پاؤں پہ ناچتی ہیں۔ بون میرو کینسر کی وجہ سے 12سال کی عمر میں انہیں اپنی ٹانگ سے محروم ہونا پڑا۔وہ کہتی ہیں کہ آپریشن کے دن انہیں محسوس ہوا کہ وہ آخری بار رقص کریں گی اس لیے انہوں نے جی بھر کر رقص کیا۔ لیکن گزشتہ بیس سال سے وہ ایک ٹانگ کے ساتھ رقص کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ دل سے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی ہمت آپ کا ہمیشہ ساتھ دے گی۔

منیبہ مزاری کو کون نہیں جانتا۔ ایک حادثے نے اسکی زندگی بدل ڈالی، چلنے کی قوت چھین لی۔ اس حادثے نے اس سے وہ قوت چھین لی جو ایک شادی شدہ عورت کو بچے کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ وہ کیا کرتی گھر بیٹھ جاتی اوروں سے جینے کا سوال کرتی خودداری کو منوں مٹی تلے دبا دیتی۔۔ نہیں اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اپنے آپ سے ایک سوال کیا وہ سوال کیا تھا۔۔ ’’میں کیوں زندہ ہوں‘‘۔ سوال اس نے اپنے آپ سے پوچھی تھی سو جواب اسے اپنے آپ سے ملنی تھی۔ اس نے رنگ اٹھائے زندگی کو رنگوں سے بھرنا شروع کیا۔ آج بھی وہ زندگی کو رنگوں سے بھر رہی ہے۔ 
سوچتا ہوں خودداری کی ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو ہماری نظروں سے گزرتی ہیں۔ ہمارے لیے حوصلے کا باعث بنتے ہیں۔ مصائب اور تکالیف انہیں چھو کر گزرتی ہیں مگر ان کی استقامت اتنی بلند ہوتی ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ بلند حوصلوں سے کرتے ہیں۔ غربت کبھی بھی خیرات اور بھیک سے ختم نہیں ہوتی بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور معاشی منصوبہ بندی سے ہوسکتی ہے۔ 

مچھلی کھلانے سے بہتر ہے مچھلی پکڑنا سکھائیں۔ ہم نے بے شمار خیراتی ادارے بنا لیے۔ بیت المال بنا یا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بنا یا۔ محکمہ زکواۃ بنا یا۔ کیا کیا گل نہیں کھلائے ،کیا غربت ختم ہوئی؟ وہ لوگ جو اپنی قوتِ بازو پر انحصار کرتے تھے انہیں اس سسٹم نے بھکاری بنا دیا۔ریاست کو دراصل ہم نے جگانے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اس کی ذمہ داریوں سے اسے آگاہ کیا۔ غیر منصفانہ نظام نے ایدھی پیدا کیے۔ چھیپا پیدا کیے، رتھ فاؤ پیدا کیے۔ مفلوج سسٹم نے بھیک کو بڑھاوا دیا۔ ہمیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ نظام کا بوجھ ہم ہی اٹھائیں گے اور ہم ان خالی جگہوں گ بھر دیں گے جو ہمارے دسترس میں نہیں۔ ہم کیوں وہ کام کرتے ہیں جس کا گند صاف کرنے میں صدیاں لگیں گی۔

خودداری ہمیشہ سے سوال کرتی چلی آرہی ہے۔ اسے ہمیشہ موجوں اور تند وتیز ہواؤں سے مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ کہیں اس کے ارادے متزلزل ہوئے تو کہیں اس نے اپنے قدم زمین کے اندر گاڑ کر اپنے آپ کو مصمم پایا ۔ سنا ہے آج کل ہوائیں ذرا تیز چل رہی ہیں سو اپنی خودداری کو سنبھال کر رکھیے گا۔ورنہ روپے کے مقابلے میں سعودی ریال یا چائنیز یون آپ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔