-خطے میں امن وامان کی صورتحال گزشتہ کئی دہائیوں سے خراب ہے جس کی بہتری کیلئے پاکستان نے بارہا پہل کرتے ہوئے امن اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر زور دیا اور اسی طرح بھارت کے ساتھ بھی ہر معاملے کو میز پر بیٹھ کر حل کرنے کا کہا مگر بھارت کی جانب سے ہمیشہ منفی جواب آیا۔
اور اس نے شرط رکھی کہ دہشت گردی پر بات کی جائے جس پر وزیراعظم عمران خان نے حامی بھری اور تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی مگر بھارت پھر مکر گیا ۔ پلوامہ واقعہ کے بعد اب حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں خاص کر گزشتہ روزبھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی مگر اس کے باوجود پاکستان خطے میں استحکام اور دیرپا امن کو قائم رکھنے کیلئے صبر وتحمل سے کام لے رہا ہے لیکن جارحیت کا بھرپور جواب دینے کیلئے بھی تیار ہے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ عسکری کشیدگی کے بعد خطاب میں بھارت کو جنگ کی طوالت اور تباہ کاریوں سے متعلق خبردار کرتے ہوئے عقل و حکمت اختیار کرنے کا مشورہ دیا اور ایک مرتبہ پھر پلوامہ حملے میں تحقیقات کی پیش کش کی۔
وزیر اعظم کا خطاب کے آغاز میں کہنا تھا کہ کل سے جو صورتحال بن رہی ہے میں چاہتا تھا کہ میں آپ کو اعتماد میں لوں۔ پلوامہ حملہ کے بعد ہم نے بھارت کو تحقیقات میں ہر طرح کا تعاون فراہم کرنے کو کہا۔ ہم لواحقین کے دکھ کو سمجھ سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے ہر طرح کی تحقیقات کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اگر کوئی پاکستانی اس میں ملوث ہے تو پاکستان پوری طرح تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم نے یہ اس لیے کہا کہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے کہ پاکستان کی زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کی جائے۔اس معاملے میں کوئی تنازع تو تھا ہی نہیں ہم تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار تھے۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھااس کے باوجود مجھے یہ خدشہ تھا کہ بھارت کوئی ایکشن لے گا۔
اور اسی لیے میں نے کہا تھا کہ ایسی کسی صورت میں جواب دینے پر پاکستان مجبور ہو گا۔جواب ہمیں دینا تھا کیونکہ کوئی بھی خود مختار ملک اپنی خود مختاری پر حملہ برداشت نہیں کرتا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ کسی طور مناسب نہیں کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں کارروائی کرے اور جج اور منصف اور فیصلہ ساز خود ہی بن جائے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اب سوچنا یہ ہے کہ مستقبل میں کیا رویہ اپنایا جائے۔بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا میں بھارت سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب وقت ہے کہ ہم عقل اور حکمت استعمال کریں۔ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان میں غلط اندازے لگائے گئے۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد کہاں جائے گی۔پہلی جنگ عظیم کو چھ ماہ میں ختم ہونا تھا مگر اس کو چھ سال لگ گئے۔
افغانستان میں ہونے والی جنگ میں کیا امریکہ نے سوچا تھا کہ وہ 17 سال افغانستان میں پھنسا رہے گا۔پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا چونکہ جنگوں کے حوالے سے ہمیشہ ہی اندازے غلط ہو جاتے ہیں تو کیا بھارت اور پاکستان اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔وزیر اعظم کا کہنا تھامیں بھارت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کے ہتھیار ہمارے اور ان کے پاس ہیں کیا ہم اندازوں کی غلطی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر صورتحال یہاں بگڑتی ہے تو بات کہاں تک جائے گی اور تب حالات نہ میرے اختیار میں رہیں گے اور نہ نریندر مودی کے۔ وزیر اعظم نے انڈیا کو تحمل کا مشورہ دیتے ہوئے ایک بار پھر پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیش کش کی۔
انہوں نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر دعوت دیتا ہوں کہ ہم تحقیقات کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اگر آپ دہشت گردی پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔
ہمیں بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل کرنے چاہئیں۔بہرحال اس تمام صورتحال میں پاکستان نے خطے میں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے اور کشیدہ ماحول کے خاتمے کیلئے ایک بار پھر امن کی پیشکش کی ہے جو یقیناًقابل تعریف ہے باوجود اس کے کہ گزشتہ روز بھارت نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگی جنون کا ثبوت دیا مگر پاکستان کی جانب سے جنگی راستہ نہیں اپنایاجارہا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان خطے میں دیرپا امن اور ترقی کا خواہاں ہے ۔البتہ موجودہ صورتحال انتہائی نازک ہے جس پر پاکستان اپنی دفاع میں خاموش نہیں بیٹھے گا اور بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
خطے میں بگڑتی صورتحال ، پاکستان کی امن پیشکش

وقتِ اشاعت : February 28 – 2019