’’صاحب! مجھے یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ آپ کو زنانہ وارڈ سے نکال کر مردانہ وار ڈ میں منتقل کر دوں‘‘۔کیڈٹس کی ٹریننگ کے پہلے دن ان کے ٹریننگ انچارج نے کہا۔ یہ بات سن کر مجھے شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا لیکن جب تھوڑا سا موجودہ نظام تعلیم پر غور کیا تو پتہ چلا کہ آجکل کی سکول ایجوکیشن میں بچوں اور بچیوں کو پڑھانے کے لیے زیادہ تر خواتین اساتذہ کو رکھا جاتا ہے۔ان اساتذہ کی تعلیم وتربیت کے باعث بچوں میں فیصلہ کرنے کی قوت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔اگر دیکھا جائے تو بچیوں کے لیئے تو یہ چیز کافی حد تک قابل قبول ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت خواتین کی زیر نگرانی ہو جائے لیکن اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت بھی خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی ہو تو ان کے اندر بہت سی کمزوریا ں رہ جاتی ہیں۔
سب سے پہلی کمزوری قوت فیصلہ کی کمی ہے۔ خواتین میں قدرتی طور پر قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے۔ اگر وہ کوئی فیصلہ کر بھی لیتی ہیں تو اس پر قائم نہیں رہ پاتیں۔ یہ کمی خاص طور پر میں نے ان بچوں میں دیکھی ہے جن کی تما م تر پرورش ماں کی زیرِنگرانی ہوئی ہواور ان کا باپ اس دنیامیں موجود نہ ہوں۔سکولز میں اکثر خواتین ایسی ہوتی ہیں جن کی تعلیم بہت کم ہوتی ہے اور وہ چند پیسے حاصل کرنے کے لیئے ان سکولوں میں ملازمت کر رہی ہوتی ہیں۔کم تعلیم یافتہ ٹیچرز بچوں کی درست تربیت نہیں کر سکتیں اور جن کمزوریوں کا وہ خود شکار ہوتی ہیں وہی کمزوریاں بچوں میں منتقل کر دیتی ہیں۔بچے ٹیچرز کی تما م حرکات کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تما م چیزیں ان کی ذات کا حصہ بھی بن رہے ہوتے ہیں۔
دوسر ی کمزوری تعلیم قابلیت کی ہے۔ سکولز میں ٹیچر ز رکھنے کا کوئی معیار نہیں ہے۔ جو ٹیچر ز کم تنخواہ لینے پر راضی ہوجاتی ہیں ان کو ٹیچرز رکھ لیا جاتا ہے۔ اگر پرنسپل کی کوئی رشتہ دار یا واقف لڑکی گھر میں فارغ بیٹھی ہے یا اسے تھوڑے سے جیب خرچ کی ضرورت ہے تو اس سے بہتر آپشن اور کوئی نہیں۔ بہت سی ٹیچرز کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں تو ہوتی ہیں لیکن وہ بڑی مشکل سے تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی ہوتی ہیں۔اس لیئے ان کے پاس کوئی بھی تعلیمی قابلیت نہیں ہوتی۔ خود میں تعلیمی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ قابلیت اپنے طلباء میں منتقل بھی نہیں کر سکتیں۔اور بچوں کو وہ تعلیمی معیار نہیں دے پاتیں جس کا ان کو عملی زندگی میں اشد ضرورت ہوتی ہے۔
تیسری کمزوری آداب معاشرت اور استا دکے مقام کی پہچان کی ہے۔ اکثر سکول ٹیچر ز کی تعلیم پرائیویٹ ہوتی ہے اور انہوں نے عام طور پر میڑک کے بعد کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی اور ان کی زیادہ تر تعلیم گھر بیٹھے حاصل کردہ ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان کو نہ تو آداب معاشرت کا پتہ ہو تاہے۔ اور نہ ہی استا د کے اصل مقام کا ۔ جب تک ٹیچرز کو استا دکے اصل مقام ک پتہ نہ ہو گا وہ بچوں کو اس بارے میں نہیں بتاپاتی۔ بچوں کو استا د کے مقام کا علم نہیں ہوتا نہ ہی ان کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ بڑوں کی عزت کیسے کرنی ہے۔
آج کی ٹیچرز صرف کتاب پڑھانے کو ہی علم منتقل کرنے کا نام دیتی ہے جبکہ جس ماحول میں ہم لوگوں نے پڑھا ہے وہاں پر ہمارے ٹیچرز نہ صر ف درسی کتا بوں کو پڑھاتے تھے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ بتا تے تھے اور ان کی نصیحتوں میں اس قدر اثر ہوتاتھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم ان کی باتوں پر آج تک عمل پیرا ہیں ۔ شاید ان کی باتوں میں اس لیئے اثر ہوتا تھا کہ ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا تھا۔ آج کل کی ٹیچرز کے قول وفعل میں بہت زیادہ تضاد ہوتا ہے اس لیئے ان کی باتیں بچوں پر کوئی اثر نہیں کرتیں۔
چوتھی کمزوری خود کو مظلوم سمجھنے کی ہے۔ اکثر خواتین اپنے آپ کو مظلوم سمجھتی ہیں اور ان کی یہی مظلومیت نہ صرف ان کی ذات کو متا ثر کر تی ہیں بلکہ ان کی اولاد پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں ۔ یہ مظلومیت ان کے طلباء میں بھی منتقل ہوتی ہے اور وہ بھی خو دکو مظلوم سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور ہر معاملے میں یہ کہہ کر بری الزمہ ہو جاتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟
ان سب کمزوریوں کے باعث ہماری نئی نسل کے مردوں میں زنانہ عادات اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور وہ مردانہ خوبیوں سے عاری ہوجاتے ہیں ۔ہمارے نوجوان بچے اور بچیوں میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ۔ Co-educationکی وجہ سے ان کمزویوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور ہماری نئی نسل کے مردوں میں زنانہ عادات و صفات کی بھر ما ر ہوتی ہے۔
زنانہ وارڈ سے مردانہ وارڈ کا سفر
وقتِ اشاعت : March 5 – 2019