ایک طرف جہاں سرد جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا وہیں خطے میں شدت پسندی بھی جڑ پکڑتی جارہی تھی مگر اس وقت امریکہ اورعالمی برادری کے مفادات خطے میں کچھ اور ہی تھے ۔اس دوران یہ خطہ ایک نئی قوت اور جنگ کی طرف جا رہا تھا جس کا اندازہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی نہیں تھا بہرحال سوویت یونین کے خاتمے کے بعد افغانستان میں طالبان نے حکومت قائم کی اور اس طرح طاقت کا توازن بگڑنے لگا جس نیت کے ساتھ افغانستان میں امریکہ نے سرمایہ کاری کی اور کالعدم تنظیموں کا سہارا لیا اب ان کی طرف سے امریکہ کو صاف جواب ملنے لگا ،سوویت یونین افغانستان سے جاچکا تھا ۔
امریکہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ وہ اب اپنی مرضی سے خطے میں حکمرانی کرے گا مگر اس کی تمام خواہشات پر اس وقت پانی پھر گیا جب افغانستان میں طالبان حکومت نے امریکہ کے احکامات کو ماننے سے صاف انکار کردیا جبکہ رہی سہی کسر نائن الیون حملے نے پوری کردی۔
جس پودے کی بنیاد امریکہ نے رکھی تھی وہ ایک تناور درخت بن چکا تھا جو امریکہ اور مغرب کیلئے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا جس کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے حوالے سے نئی پالیسی بنائی اورنئے اتحادی بنانا شروع کردیئے مگر اس جنگ کا اندازہ امریکہ کے گمان سے باہر تھا کہ وہ باآسانی اپنے اہداف حاصل کرپائے گا اور اس طرح خطہ ایک نئی جنگ کا منتظر تھا ۔
اس لڑائی نے امریکہ کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور اس نے بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی اٹھایا۔ امریکہ کی جنگی پالیسی پرانی تھی جبکہ دور تبدیل ہورہا تھا اور نئے پاور دنیا میں سامنے آنے لگے جس میں چین خاص کر شامل ہے جس نے اس عرصہ کے دوران اپنی معیشت کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ ایشیاء سمیت دنیا کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی۔
بہرحال امریکہ کی تمام طاقت پر مبنی پالیسیاں اور کوششیں ناکام ہوتیں رہیں اوروہ جنگی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اس خطے میں جس طرح سے تباہی آئی یہ انہی پالیسیوں کا نتیجہ تھا اور مجبوراََ امریکہ نے مذاکرات کے راستے نہ صرف اپنانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں بلکہ فوجی انخلاء کا بھی فیصلہ کرلیا ہے یقیناًاسکے اچھے نتائج آنے کے قوی امکانات ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے جہاں دنیا کے اہم ممالک شامل ہیں وہیں پاکستان بھی ثالثی کیلئے بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ پاکستان نے اس جنگ کے دوران معاشی اور جانی نقصانات بہت زیادہ اٹھائے ہیں جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے ۔ پلوامہ واقعہ کے بعد ایک بار پھر خطے میں حالات کشیدہ ہوگئے ہیں مگر یہ سب بھارت کی جنگی جنون کی وجہ سے ہے، پاکستان نے پہلے ہی تعاون کی پیشکش کررکھی تھی مگر بھارت نے جنگی راستہ اپنایا جسے منہ کی کھانی پڑی۔
پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آج بھی پُرعزم ہے۔گزشتہ روز وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے اعلان کیا کہ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 44 افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں جیش محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے بیٹے حماد اظہر اور رشتے دار مفتی عبدالرؤف شامل ہیں۔
شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ ان دونوں افراد کے نام بھارت کی طرف سے پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزئیر میں شامل ہیں۔شہر یار آفریدی کا کہنا ہے کہ اگر 14 فروری کو ہونے والے پلوامہ حملے سے متعلق بھارت نے ان دونوں افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں شواہد پیش کیے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ورنہ انہیں رہا کردیا جائے گا۔
مقبوضہ کشمیر میں 14 فروری کو پلوامہ کے مقام پر ایک خود کش حملہ میں تقریباً 50 کے قریب بھارتی فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے،شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی ملک بھر میں جاری ہے اور یہ کارروائیاں دو ہفتوں تک جاری رہیں گی۔ موجودہ حکومت کسی بھی شخص کو پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
پاکستان پہلے بھی واضح کرچکا ہے کہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے حوالے سے استعمال ہونے نہیں دے گی بلکہ دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی مگر اس میں کسی کے ڈائریکشن کی ضرورت نہیں اور نہ ہی پاکستان کسی غیرکی جنگ کا حصہ بنے گا۔
پاکستان میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کے دوران امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے موجودہ کریک ڈاؤن کے بعد تمام ابہام کابھی خاتمہ ہوگا مگر بھارت کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں عدم استحکام پیدا نہ ہو کیونکہ جنگ کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے جو کسی کے مفادمیں نہیں ۔
خطے میں استحکام کی ضرورت

وقتِ اشاعت : March 6 – 2019