|

وقتِ اشاعت :   March 11 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے بھاگ ناڑی میں صاف پانی کیلئے سولہ نوجوان ڈھائی سو کلو میٹر کا پیدل لانگ مارچ کرکے کوئٹہ کے قریب پہنچ گئے۔ قبائلی ، سیاسی و سماجی کارکنوں نے لانگ مارچ کے شرکاء کا دشت کے مقا م پر استقبال کیا۔ 

لانگ مارچ کے شرکاء آج کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے باہر دھرنا دینگے۔ تفصیل کے مطابق بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی کے سولہ نوجوانوں نے یکم مارچ کو سماجی کارکن وفا مراد سومرو کی قیادت میں بھاگ ناڑی سے پیدل لانگ مارچ شروع کیا تھا ۔ مارچ کے شرکاء سبی، ڈھاڈر، مچھ اور کولپور سے گزرتے ہوئے تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر کا طویل سفر دس روز میں طے کرکے اتوار کو کوئٹہ سے ملحقہ مستونگ کے علاقے دشت پہنچ گئے جہاں قبائلی و سیاسی رہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے ان کا استقبال کیا۔ 

لانگ مارچ کے شرکاءآج کوئٹہ پہنچیں گے جبکہ سریاب کے علاقے گاہی خان چوک پر پہنچنے کے بعدمختلف سیاسی و سماجی شخصیات اظہار یکجہتی کے لئے احتجاجی قافلے کا استقبال کرینگے اور پیدل مارچ کا قافلہ صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلی سیکرٹریٹ کے سامنے بھاگ ناڑی کے عوام کو پینے کے پانی کی فراہمی کے لئے پرامن احتجاج ریکارڈ کرائیں گے ۔

مارچ کے شرکاء کا کہنا ہے کہ بھاگ ناڑی کی ڈیڑھ لاکھ آبادی گزشتہ بیس سالوں سے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ علاقے میں انسان اور حیوان ایک ہی جگہ گندے جوہڑوں اورتالابوں سے گندا پانی پینے پر مجبور ہیں ۔ کیڑوں اور گندگی سے بھرے پانی پینے سے علاقے کا ہر دوسرا فرد ہیپٹائٹس اور دیگر موذی بیماریوں میں مبتلا ہے ہر سال سینکڑوں اموات ہوتی ہیں ۔ 

پانی کی قلت کے باعث ڈیڑھ لاکھ میں سے نصف آبادی نقل مکانی کرچکے ہیں حکومت نے ہنگامی اقدامات نہ کئے تو باقی لوگ بھی علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ لانگ مارچ کی قیادت کرنیوالے وفا مراد نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھاگ ناڑی میں پانی کے مسئلے کا از خود نوٹس لیا۔ 

انہوں نے حکومت کو علاقے کے عوام کو پینے کے پانی کی سہولت فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم تین ماہ گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں ہوا۔ حکومتی سطح پر عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔ علاقے کے نوجوانوں نے تنگ آکر بھاگ ناڑی سے کوئٹہ تک پیدل مارچ شروع کردیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے قافلے میں شامل نوجوانوں نے برفباری، بارش اور تمام مشکلات کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا۔ ہمارے دو ساتھی بیمار ہوگئے باقی تمام ساتھیوں کے پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں مگر ہم نے ہمت نہیں ہاری اور چلتے رہے۔ ہمارا لانگ مارچ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کیلئے امید کی کرن بن گیا ہے ہم احتجاج کا یہ سلسلہ ترک نہیں کرینگے اور حکومت نے اگر ہماری شنوائی نہ کی تو تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی کرینگے۔ 

لانگ مارچ میں شریک ایک اور نوجوان نے بتایا کہ ہمارے علاقے کے لوگ صبح ہوتے ہی پانی کی شروع کردیتے ہیں شام تک اسی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں کہ پانی کا کس طرح بندوبست کیا جائے۔ ہم تعلیم، صحت اور سڑکیں نہیں پانی جیسا بنیادی حق مانگ رہے ہیں ہمارے لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں ۔ ہر سال کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود پانی کی فراہمی کا کوئی مستقل بندوبست نہیں کیا جاتا۔ حالیہ بارشوں کے باوجود ہمارے علاقے میں پانی کی قلت ہے ۔

کوئی ڈیم نہیں جس کی وجہ سے سارا پانی بہہ کر سندھ تک چلا جاتا ہے مگر ہمیں پینے کا پانی بھی نہیں ملتا۔ احتجاج کا ہر طریقہ اپنایا مگر حکمرانوں کو ہماری کوئی فکر نہیں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہم نے فیصلہ کرلیا ہم پانی کا بنیادی حق لے کر رہیں گے چاہے اس کیلئے ہمیں تادم مرگ بھوک ہڑتال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔