برادر اکمل شہزاد گھمن لکھاری ہیں براڈکاسٹر ہیں کتاب ’’میڈیا منڈی‘‘ کے مصنف ہیں۔ مہربان اور انسان دوست آدمی ہیں۔ جب اسلام آباد میں مقیم تھا تو کبھی ان کے ہاں محفلیں جمتی تھیں یا کبھی میرے پاس تو بلوچستان ضرور زیر موضوع آتا تھا۔ اب ان کا کوئٹہ آنا نہیں ہوتااور میں اسلام آباد جا نہیں پاتا تو فیس بک ہی واحد ذریعہ ہے جہاں اس کے پوسٹ دیکھ کر ان کی خیر خیریت کی خبر ہو جاتی ہے۔
ایک ماہ قبل ایک پوسٹ میں انہوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ان کی لکھی گئی ایک کہانی پر فلم بن رہی ہے کہانی اور کردار وں کا بھی ذکر تھا۔ تو خوشی ہوئی کہ وہ تحریر تقریر کے بعد اب فلم پروڈکشن کی طرف آرہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کی ایک اور تحریر جو انہوں نے اپنے وال پر شائع کیا تھا نظر سے گزری کہانی کچھ یوں تھا کہ ہری پور کے علم دوست اور انسان دوست زاہد کاظمی ہری پور میں باب العلم کے نام سے ایک اسکول چلا رہے ہیں جہاں وہ فی بچے کو ایک روپیہ فیس کے عوض زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ قطبہ میں واقع اسکول کا آغاز تین سال قبل 50بچوں اور بچیوں کے ساتھ شروع ہوا تھا اِس وقت یہ تعداد100کے آس پاس ہے۔
اسکول میں محدود وسائل کے حامل بچے داخل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب بچوں کو بیگ، کتب، سٹیشنری، یونیفارم، ٹرانسپورٹ اور ریفریشمنٹ بھی مہیا کی جاتی ہے۔ اسکول بلڈنگ کرائے پر لی گئی ہے جبکہ پانچ خواتین اساتذہ، ایک آیا اور سیکورٹی گارڑ بھی اسکول عملے میں شامل ہیں۔ سب سہولیات کے ساتھ ایک بچے پہ سالانہ 30ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ 38بچے ایسے ہیں جن کے لیے اسپانسرشپ درکار ہے۔
تحریر پڑھ کر میرا ذہن ماضی کی طرف چلا گیا۔ میرے سامنے علی جان بلوچ کی دھندلی تصویر نمایاں ہوئی۔ عجب انسان تھا، جنون کی حد تک اپنے کام میں مخلص۔۔ کوہڑو جھاؤ جیسے پسماندہ اور دور افتادہ علاقے میں علم کی روشنی پھیلانے کا آغاز کیا ،علم پھیلانے کا کام انہوں نے جنون کی حد تک کیا۔ کتابوں کا شیدائی تھا مطالعے کے لیے ان کا ذاتی لائبریری ہوا کرتا تھا لائبریری کو نہ جانے وہ کون کون سی کتابوں سے آباد کر چکا تھا۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے علی جان کو نہ جانے آس پا س کے لوگوں کا خیال کیسے آیا کہ انہیں مطالعے کا عادی بنا یا جائے۔ لائبریری کا خیال آیا مگرسوال یہ تھا کہ جگہ اورکتابوں کا انتظام کیسے ہو ، لیکن کہتے ہیں نا کہ جن کے ارادے مصمم ہوں تو مشکلات بھی بند نہیں باندھتے۔ لائبریری کے لیے کسی نے اپنی جھونپڑی وقف کی ،کتابیں وہ اپنی ذاتی لائربری سے لے آئے۔
کتابیں کم پڑیں تو انہوں نے مزید کتابوں کے حصول کے لیے کوئٹہ اور کراچی کا رخ کیا۔ دوستوں اور کتاب گھروں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کراچی کے دوستوں کو آمادہ کیا۔ جب کتابیں جمع ہوگئیں لائبریری کا سیٹ اپ تیار ہوا مطالعے کا رجحان نہیں تھا مطالعے کا رجحان کیسے پیدا کیا جائے اس کے لیے انہوں نے صبح کے شفٹ ایک اسکول کا آغاز کیا۔ اسکول کا ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لیے ہم خیال دوستوں کو اکھٹا کیا ان کے ساتھ مل کر خود مزودری کرنے لگے مٹی اور گارا اٹھاتے رہے۔
اسکول تیار ہوا تو اسکول کا نظام چلانے کے لیے انہوں نے ایک مختصر سی فیس رکھی اور جو بچے فیس برداشت نہیں کرتے ان کے لیے مفت تعلیم کا انتظام کیا۔ لائبریری میں بچے تو آنے لگے مگر بڑوں کو کیسے آمادہ کیا جاتا اس کے لیے انہوں نے تعلیمِ بالغان کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ کوہڑو جو جھاؤ کا پسماندہ علاقہ تصور کیا جاتا تھا علمی حوالے سے آواران کا روشن علاقہ تصور کیا جانے لگا۔
کوہڑو میں نہ بجلی تھی اور نہ ہی پانی ، اس کے لیے وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ متحرک ہوئے لوگوں کو قائل کیا، گاؤں میں بجلی کی فراہمی کیسے عمل میں آئے اور پانی کا حصول کیسے آسان ہو اس کے لیے انہوں نے علاقے میں فنڈ ریزنگ کا طریقہ کار متعارف کرایا۔ جمع ہونے والی رقم سے واٹر سپلائی کا نظام بحال کیا پانی کے کنکشن لگائے پانی کا حصول آسان ہوا تو بجلی کے لیے جنریٹر سسٹم متعارف کرایا۔
وہ علاقہ جو رات کے وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا برقی قمقموں میں جگمگانے لگا۔ لوگوں میں شعور و آگاہی پھیلنے لگا اور لوگ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ جہاں ریاست بے خبر ہو وہاں لوگ جاگ جائیں تو وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں بشرطیکہ کام کا جذبہ ہو اور جذبہ خالص اور مشترکہ ہو تو یہ سوچ علاقے کی ترقی کی راہوں کا تعین کر سکتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو مزدوری یا کھیتی باڑی پہ لگاتے تھے، وہ لوگ اپنے بچوں کو حصولِ تعلیم کے لیے کراچی اور کوئٹہ کے تعلیمی اداروں میں بھیجنے پہ آمادہ ہوئے۔ کچھ ڈاکٹر بنے کچھ ٹیچر بنے بہت سے اب بھی زیرِ تعلیم ہیں۔
بلوچستان جہاں نواب اکبر بگٹی کی شہادت نے شورش کی فضا قائم کی وہیں کوہڑو بھی اس شورش سے محفوظ نہیں رہا۔ علی جان بھی اس کی زد میں آیا۔کیسے اور کیوں مارا گیا۔ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ زاہد کاظمی کی کہانی نے علی جان کی یاد دلا دی۔ وہ علی جان جس کے اندر کمٹمنٹ تھی وہ علی جان جو سوچتا تھا وہ کر دکھاتا تھا۔ علی جان کی زندگی نے بعد میں کروٹ کیسے بدلی اس نے اپنی راہیں تبدیل کیسے کیں ،زمینی صورتحال جب بدل جاتی ہے تو بہت سی چیزیں بھی بدل کر رہ جاتی ہیں سو علی جان پہ بھی اس کا اثر ہوا۔
لیکن علی جان نے جس کام کا آغاز کیا تھا اسے وہ کام پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے تھا وہ سفر گو کہ ذرا طویل مگر پھلدار ضرور تھا۔ علی جان جلدی کر گئے اپنا روٹ انہوں نے تبدیل کیا ان کے چلے جانے کے بعد اسکول اور لائبریری بند ہوگئے۔ جو سلسلہ تھا وہ رک گیا۔ اب کوہڑو جہاں بھی نظریں دوڑاتا ہے علی جان کا نعم البدل اسے کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ زمینی حالات بھی تبدیل ہوگئے زمینی حالات نے سوچ بھی تبدیل کرکے رکھ دئیے اب خدمت کا جذبہ کہیں نظر نہیں آتا ۔
بلوچستان میں جہاں کہیں چلے جائیں تو ہر طرف خلاء ہی خلا ء نظر آتا ہیجن کو پر کرنے کے لیے کہیں کہیں کوئی علی جان نظر آتا ہے۔ انہوں نے کمٹمنٹ کیا ہوا ہے کہ انہیں آخری دم تک خدمت کے جذبے سے محاذ پہ لڑنا ہے۔ سو وہ اپنا جذبہ دکھا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر یہی جذبہ ہر ایک کے پاس ہو تو شاید کوئی خلاء باقی رہے لیکن ایسا کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔
علی جان عجب آدمی تھا اس کا کمٹمنٹ بول رہا تھا مگر نہ جانے علی جان کیوں جلدی کر گئے، انہوں نے وہ راستہ ترک کیا جو اس کا تھا علم کا تھا۔ یہ سوچتا ہوں تو سوچتا ہی رہ جاتا ہوں۔ سوال کا جواب انہی کے پاس تھا سو اس کا جواب وہ اپنے ساتھ لے گئے۔
ایک تھا علی جان
وقتِ اشاعت : March 13 – 2019