سرداروں، وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا علاقہ بھاگ ناڑی۔۔ کبھی سبی تو کبھی کچھی کے پلو باندھ دیا جاتا ہے کبھی رندبادشاہی کرتے ہیں تو کبھی ڈومکی قابض آتا ہے ۔یہ سلسلہ برسوں سے چلتا چلا آرہا ہے۔ ہرکسی نے قسمت آزمائے، تخت و تاج ان کے حصے میں آئے، خوش حالی نے ان کا دامن گھیرا مگر بھاگ ناڑی کی قسمت میں تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی فقط لفظو ں تک محدود رہی۔
بھاگ ناڑی کا باشندہ صبح اٹھا تو اسے خیالوں نے آن گھیرا کہ پانی کا حصول ہو مگر کیسے۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر۔۔ جہاں جانور وہاں انسان، ایک ہی تالاب دو الگ الگ ہئیت رکھنے والے جاندار، کوئی چوپایہ تو کوئی دوپایہ۔۔ کیا ہے بس گلے کو راحت پہنچانی ہے۔بھاڑ میں جائے نظامِ انہضام۔۔ کیڑے کیوں نہ پڑ جائیں۔ بیماریوں کی افزائشِ نسل کیوں نہ ہو۔۔ یہی دن ہیں یہی راتیں۔۔ بھاگ ناڑی کی تقدیر ایک ہی گن چکر کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔
کوئی تو ہو جو اس کی صدا سنے۔۔ بھلا سننے کے لیے وہ کان کہاں سے لائیں۔۔ اتنی صدائیں کوئی فقیر لگاتا تو شاید پورا محلہ جمع ہوجاتا مگر یہاں ایسا نہیں ہے ایک نمائندہ تک جمع نہیں ہوتا۔۔تو وہ خود چل کر چلے آئے۔ ایوانِ نمائندگان تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے۔
سوال ہے جینے کا ۔۔ پانی پینے کا۔۔۔ ’’ بھاگ کو پانی دو‘‘ یہی نعرہ ہے بھاگ سے 300کلومیٹر سفر پیدل طے کرکے کوئٹہ آئے نوجوانوں کا، کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علاقے کا دکھڑا سنانے والوں کا۔ یہ دکھڑا ان نمائندوں کو سنا رہے ہیں جو منتخب ہونے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے جنہیں الیکشن کی یاد ستاتی ہے تو چلے آتے ہیں۔ اب جب کہ اسمبلی میں بیٹھے کوئٹہ کی ٹھنڈ بھری فضا میں گرم ہوا کا مزہ لے رہے ہیں تو سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں۔ وہ آواز جو عام آدمی کو سنائی دے رہی ہے ایوان میں بیٹھے نمائندگان کو سنائی نہیں دیتی۔
جیون کی ابتدا ہی پانی سے ہوتی ہے۔ انسانی جسم سے پانی نکال دیا جائے تو پورا جسم ہی خشک ہوجاتا ہے۔ جسم کو توانا رکھنے کے لیے پانی بے حد ضروری ہے۔ پانی ان بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے جس کی فراہمی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ علاقائی نمائندگان کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ وہ علاقے کے مسائل سے آگاہ ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ کہاں کی کیا صورتحال ہے اس صورتحال پہ قابو کیسے پا یا جاسکتا ہے۔
وہ نمائندہ اسمبلی میں داخل ہونے سے قبل اہم مندرجات کا حقیقی مطالعہ کرکے ایک پالیسی وضع کرتا ہے۔ منصوبے متعین کرتا ہے۔ علاقائی بجٹ بن جاتا ہے اس بجٹ کو عوام کی ضرورتوں پہ خرچ کرکے خلا کو پُر کیا جاتا ہے۔ مگر بلوچستان میں ایسا نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو ہے جس طرح سے ہے بس ٹھیک ہی ہے۔
اب یہ کیابھاگ کا شہری صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی ذہن پر ایک ہی نقشہ وضع کرتا ہے کہ پانی کا حصول مگر کیسے۔۔ پانی کے حصول کے لیے پورا دن جتن کرتا ہے۔پانی تلاشنے کے بعد ہی زندگی کی دیگر معمولات پہ توجہ دینا شروع کرتا ہے اب ذرا سوچیے دیگر کام کیسے سرانجام پائیں۔ تخلیقی صلاحیتیں کیسے بروئے کار لائیں جب ایک ہی سوال ان کے ذہنوں پر اٹکا رہے۔
پیدل مارچ کرنے والوں میں سے ایک وفا مراد ہیں۔ وفامراد اور اس کے دیگر ساتھیوں کو بھاگ سے کوئٹہ شہر تک پیدل سفر کرتے ہوئے 11دن لگے۔ پیدل مارچ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہی سوال میں نے ان سے کیا ’’ ہم گزشتہ بیس سالوں سے احتجاج پر ہیں۔ ہمارا مسئلہ پانی کا ہے اگر حکومت ہمارا مسئلہ حل کرتا تو ہم یہاں چل کر نہیں آتے۔ ہمیں آنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہماری آواز وہاں سنی نہیں جاتی سو ہم یہاں چلے آئے۔ حاکموں کو یہ بتانے کے لیے کہ پانی بھی ایک مسئلہ ہے‘‘۔
وفا مراد کے مطابق تحصیل بھاگ میں پانی کا مسئلہ گزشتہ 20سالوں سے ہے۔ اس سے پہلے بھاگ ناڑی کو سنی واٹر سپلائی سے پانی دی جاتی تھی جو پورے بھاگ کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ 1998میں جب پانی کی فراہمی منقطع کر دی گئی تو بحران شروع ہوگیاجو تاحال جاری ہے۔ اس دوران کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں ،پانی کے نام پر کئی منصوبے بنائے گئے۔ اربوں روپے خرچ کیے گئے مگر ان کا فائدہ عام آدمی کو نہیں ہوا۔
یہ علاقہ پہلے کچھی کے زیرانتظام تھا۔ جب انتخابی حلقوں میں رد وبدل کیا گیاتو علاقہ سبی کا انتخابی حلقہ قرار پایا ۔پہلے سردار یار محمد رند یہاں کا نمائندہ ہوا کرتا تھا اب صوبائی اسمبلی میں نمائندگی سردار سرفراز ڈومکی کر رہے ہیں۔ وفا مراد کہتے ہیں کہ ہم بٹے ہوئے ہیں اب ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنی جھولی کس کے آگے پھیلائیں اور پانی کے لیے صدا لگائیں۔
میرا ان سے سوال تھا کہ علاقے میں تعلیم کی صورتحال کیسی ہے۔ تو کہنے لگے ’’ ہم اس وقت ایجوکیشن پر بات ہی نہیں کریں گے ہمارا مسئلہ پانی کا ہے۔ صبح و شام ہمارا مسئلہ ایک ہی بنا ہوا ہے۔ ہم پانی کو لے کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ اگر پانی کا مسئلہ حل ہوجائے تو باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے لیکن پانی کا مسئلہ ہمارے نمائندے حل کرنا ہی نہیں چاہتے‘‘۔
بھاگ ناڑی میں صاف پانی کے بحران کو لے کر چند ماہ قبل سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لے کرایڈوکیٹ جنرل، چیف سیکرٹری سیکرٹری بلوچستان سمیت ڈپٹی کمشنربولان کو نوٹسز جاری کیا تھا۔ ضلعی انتظامیہ نے دورانِ حاضری پانی کی فراہمی کے لیے دو ماہ کا وقت مانگا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس پاس کرتے ہوئے کہا تھا کہ علاقے کو جنگی بنیادوں پر پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے۔ تاہم اس عدالتی حکم پر نہ ہی عملدرآمد کیا گیا اور نہ ہی مزید شنوائی ہوئی۔
مضر صحت پانی پینے سے علاقے میں مختلف بیماریاں لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ مستقبل میں صحت کی ہنگامی صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع بھی۔وفا مراد کا کہنا ہے کہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے زمینیں بنجر ہوگئیں لوگ نقل مکانی کر گئے ڈیڑھ لاکھ کی آبادی گھٹ کر 70ہزار نفوس پر آگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر سلسلہ یہی رہا تو آبادی کی شرح مزید گر جائے گی۔
حکومت ہر سال اسکیمیں بناتی ہے۔ اسکیمات کے نام پر عوامی خزانے سے پیسے نکالے جاتے ہیں وہ پیسے چند افراد کے جیبوں میں چلی جاتی ہیں ان کی تحقیقات نہیں ہوتیں، نتیجہ لوگ مصائب جھیلتی ہیں اور سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ لانگ مارچ کرتے ہیں۔ مزاحمت پہ اتر آتے ہیں۔ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کیا جائے تو عوام کو نہ لانگ مارچ کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ہی چیخنے چلانے کی۔۔ یہ پانی کی تحریک ہے۔۔ سوال پانی کا ہے سو بھاگ کو پانی دیں۔
سوال ہے جینے کا
وقتِ اشاعت : March 14 – 2019