وھیل کی موت واقع ہوئی۔۔ ہاں وھیل کی۔۔ آپ نے سنا نہیں۔۔ گوادر کے ساحل پر ملی لاش وھیل کی تھی۔۔ پانی کو اتنا بھی گوارا نہیں ہوا کہ وہ لاش کو زمین زادوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے اندر سمو لیتا۔ اب کیا کیا جائے بھلا سمندر سے گلہ کون کرے اور گلہ بنتا بھی نہیں، سمندر کے اندر اتنا شور جو ہے کہ اسے کوئی اور شور سنائی نہیں دیتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شور کی آلودگی سے مر گیا ہو۔ آہ۔۔۔ یہ شور کی آلودگی بھی۔۔ اب اس آلودگی کو کون سمجھائے کہ اس کی وجہ سے کتنے خاندان تکلیف میں ہیں اور نہ جانے کتنی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے کہ آواز ذرا دھیما رکھے۔ مگر جسم پر یہ تشدد کے نشان کیسے۔۔ کیسی لاقانونیت ہے اب اس لاقانونیت سے سمندر بھی آزاد نہیں رہا۔ سمندر کے اندر نہ جانے اب کون کون سی خرافات جنم لے رہی ہیں کہ سانس لینے کی آزادی بھی دشوار ہو گئی ہے۔
سمندر تواپنی مخلوق سے کبھی بھی اتنی بیگانگی کا شکار نہیں رہا، ایساکب سے ہونے لگا ہے ۔وھیل مچھلی کی موت پر شاید اسے ملال ہوا ہوگا مگر ملال کی وہ کیفیت اس کی آنکھوں میں کس نے دیکھاہے اور نہ ہی دھڑکنوں کو محسوس کیا ہوگا۔ وھیل کو کون سمجھاتا کہ گوادر کا سمندر اب وہ نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں ماہی گیر نہیں ٹرالرز، لمبی جہازیں وغیرہ وغیرہ تیرتے اور لینڈ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ ٹرالرز اتنے آزاد اور خرمستیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بیچارے ماہی گیر عش عش کرکے رہ جائیں۔ ماہی گیر کہیں ان کے زد میں نہ آجائیں کناروں کا سہارا لیے نظر آتے ہیں۔
ان کا کوئی حدود نہیں اب یہ آزادانہ گھومتے ہیں، جہاں چاہیں چلے جائیں ان کی مرضی۔ چاہے کوئی وھیل آئے یا ڈولفن۔۔ ان کے وارے نیارے ہیں، ان کے پاس لائسنس ہے بلکہ License to killہے۔ وہ اس لائسنس کے بل بوتے پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ چھوٹی سے بڑی مچھلی کا شکار کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے سرد خانے اب انسانی جانوں کے لیے کم پڑ جاتے ہیں بھلا وھیل کے لیے سرد خانے کا انتظام کہاں سے کیا جاتا کہ دفنانے سے قبل دیدار کرنے اس کا خاندان آجاتا،وھیل لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا۔اب اگر اس کے خاندان کو پتہ چل بھی جاتا تو کیا وہ آپاتے، ہرگز نہیں۔
آ بھی جاتے تو وہاں جہاں وھیل کو دفنانے کا انتظام کیا جا رہا ہوتا تو وہیں اس کے اہلخانہ کی ایک ایک بوٹی مارکیٹ میں بیچ کر پیسے کما رہے ہوتے۔ اچھا ہوا دور سے اشک شوئی کرتے اور آنسوؤں کو سمندر کے حوالے کرتے رہے۔ انسانوں کی بستی سے یہی امید کی جا سکتی ہے کہ بدبو کے پیش نظر لاش کو زمین کے اندر گاڑ ھ لیتے ہیں اگر گاڑھ نہیں لیتے تو ان کا کیا کیا جاتا۔ وھیل کی موت کیسے واقع ہوئی۔ کوئی تحقیق کوئی جستجو۔ کوئی ڈی این اے ٹیسٹ یا پوسٹ مارٹم تو کرتے۔ قاتلوں کا جو دن دیہاڑے دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں سراغ تو لگا لیتے۔ انہیں عدالتی کٹہرے میں لے آتے۔
قتل کی وجوہات پوچھ لیتے قاتل اور مقتول دونوں نامعلوم ہی ٹھہرے۔ اب مقتول اپنی خون کا حساب کس سے مانگے بھلا۔ سمندر کی وہ لہریں کیا گواہی دیں گے جو ایک کے بعد ایک ایک کرکے غائب ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اب بھلا عدالت کون لگائے۔ اب عدالتوں کا چکر کون کاٹے۔۔ عدالتوں کا چکر کاٹتے کاٹتے خاندانوں کے خاندان اپنی عمریں گزار دیتے ہیں پر انصاف ملتا نہیں اچھا ہوا لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا ورنہ وھیل کا خاندان خشکی کا چکر کاٹتے ہوئے خشکی کا مخلوق قرار دیا جاتا اور سمندر اپنی مخلوق کو واپس لینے کے لیے کچھ نہیں کر پاتا۔
آخری خبریں آنے تک وھیل مچھلی کی موت کو حادثاتی قرار دے کر امانتاً ریت کے اندر دفنا دیا جا چکا تھا۔ ریت بھی ناانصافی کی رو میں بہہ جانے والی وھیل کو اپنے اندر لینے سے انکاری رہا اور چیختا چلاتا رہا مگر سب نے سنی ان سنی کر دی۔ صرف یہ جاننے کے لیے کہ وہیل کی موت آخر واقع کیسے ہوئی یہ جاننے کے لیے نہیں کہ موت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور جسم پر انگلیوں کے نشان کس کے ہیں۔
اس طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے۔ محکمہ فشریر کی اتنی جرات کہاں کہ وہ ٹرالر مافیا یا جہاز مافیا کے خلاف کچھ کر سکے۔ خاموشی ہی کو عافیت جانی اور اعلان فرما گیا کہ بطورِ عبرت ڈھانچے کو کسی میوزیم کا حصہ بنایا جائے گا۔یکطرفہ مقابلے کی کہانی ایسی ہی ہو سکتی ہے ۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وھیل کی موت ٹرالر سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوئی ہے ایک سمندر کا شور شرابا اور دوسرا بدبخت ٹرالر۔ سمندری مخلوق جو کسی زمانے میں سمندر ی فضاؤں میں آزادی کا سانس لیا کرتے تھے اب اجنبی بن کر رہ گئے ہیں اور انہیں احتیاط سے چلنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
سمندر کی شور سے جہاں وہ لطف اٹھایا کرتے تھے اب ٹرالرز اور جہازوں کی شور سے سمندر کی شور دب کر رہ گئی ہے۔ اب تو ان مچھلیوں کو یہی صلاح دی جاسکتی ہے کہ وہ ٹرالرز اور جہازوں کے شور کو قبول کرکے اسے اپنی سماعتوں کا حصہ بنا لیں ورنہ ان کی زندگی اجیرن بن کر رہ جائے گی۔
وھیل کی موت کو حادثاتی قرار دے کر اسے دفنا دیا جا چکا ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ سمندری مخلوق وھیل کی موت سے سبق سیکھ کر آئندہ ایسی غلطی سے گریز فرمائیں گے ۔ وھیل کو اپنی جسامت پر ناز تھا اسے فخر تھا کہ کسی بھی شے حتیٰ کہ انسانوں کو چت کرنے کے لیے اس کے جسم کا ایک پرزہ ہی کافی ہوگا، لقمہ بنا کر آسانی سے نگل سکتا ہے۔ لیکن اسے کیا خبر کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے اسے بے دست و پا کیا ہے اب جنگ ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔اس وار کو روکنے کے لیے جسامت کی نہیں عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔
وھیل مچھلی کے دردناک موت پر جتنا آپ کو افسوس ہے اتنا ہی مجھے بھی ہے۔ میں افسوس کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اس کے خاندان سے اظہارِ تعزیت کرنا چاہتا ہوں اس کے گھر والوں کو صبر کرنے کی تلقین کرنا چاہتا ہوں غم و غصے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے پر روئے زمین کے انسانوں کی طرف سے معافی مانگنا چاہتا ہوں دکھ کا مداوا چاہتا ہوں انہیں سینے سے لگا کر ان کو غموں سے ذرا دور رکھنا چاہتا ہوں۔ مگر مجھے نہ تعزیت گاہ کا پتہ ، نہ ہی خاندان کااور نہ ہی مارنے والوں کا ۔ سوچتا ہوں کہ کاش شناخت نامے کے لیے کوئی پرچی ہی جیب میں ڈال دیتے۔
وھیل کی موت
وقتِ اشاعت : April 5 – 2019