تربت: بلوچستان کے معروف صحافی، تجزیہ نگاراور ماہر معاشیات لالا صدیق مرحوم کی یاد میں بی ایس او کے زیر اہتمام سیمینار کااہتمام کیاگیا جس میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد نے شرکت کی اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے مرکزی چیئرمین نزیر احمد بلوچ نے کہاکہ لالا صدیق بلوچ نوجوانوں کے لیئے ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی کو سہارا بنا کر ہمیں آگے چلنا چاہیے انہو ں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہم نے اپنے اکابرین کا راستہ اور فلسفہ چھوڑ دیا ہے ہمارے ہاں علمی سرکل ختم ہوگئے ہیں اور سیاسی بیگانگی اور جمود کاایک لامتناہی دور شروع ہوا ہے۔
جسے نوجوانوں نے توڑنا ہوگا اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہمارے نواجوں لالا صدیق جیسے دانش وروں کے فکر و نظریہ کو فالو کریں ۔انہوں نے کہاکہ یہ علم و زانت اور شعور و ٹیکنالوجی کی صدی ہے بلوچ نوجوانوں پر لازم ہے کہ وہ علم کے ہتھیار سے خود کو لیس کر کے حالات کا مقابلہ کریں جب ہم علم سے دور رہیں گے تو پسماندگی اور جہالت کے سرکل میں گردش کرتے رہیں گے۔
ہمیں سیاست میں تنقید برائے تعمیر کا اصول اپنا کر اتحاد و یکجہتی کی جانب جانا ہوگا بلوچ سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختلاف اور منافرت بلوچ قومی خوش حالی کے لیئے ایک طرف کر نے ہونگے اگر ہم نے ایک دوسرے سے نفرت اور دوری ختم نا کیں تو تباہی اور بربادی ہمارا مقدر ہوگا۔70سالوں سے بلوچ قوم استحصال کا شکار چلے آرہے ہیں اس کی بڑی وجہ ہماری اناپرستی اور عدم برداشت ہے سیاسی جماعتوں اور لیڈر شپ کو قوم کے مستقبل کے لیئے برانڈ مائنڈ ہو کر سوچنا چاہیے۔
نوجوانوں کو علم و ادب اور سیاسی سرکل منظم کر کے لالا صدیق کے نظریات کی آبیاری کرنا چاہیے تاکہ ہم مذید لالا صدیق جیسے دانش ور پیدا کرسکیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی پروفیشنل سیکرٹری ڈاکٹر غفور نے کہاکہ بلوچ قوم اس وقت حالات کے بدتریں دور سے گزررہی ہے بلوچ سیاست مجموعی قومی بیگانگی کا شکار ہے ، نوجوان مایوس اور سیاست سے کنارہ ہیں۔
قوم پرستی برائے نام ہے جن لوگوں نے قوم پرستی کے نام پر سیاست کو نقصان پہنچایا اور مراعات سمیٹے ان کا احتساب کرنا لازم ہے ، بلوچ اتحاد ضروری ہے مگر قوم پرست سیاست کے نام پرکاروبار کرنے والے دکانداروں کے ساتھ اتحاد اور یکجہتی کی باتیں بلوچ سیاست کو نقصان پہنچانے کا باعث بنیں گے،بلو چ سیاست اور بی ایس او تقسیم کرنے کے ذمہ دار قوم پرست ہیں ۔
حالات کا تقاضا ہے کہ قوم پرست رجحانات کو منظم کر کے آگے بڑھیں ۔سیمینار سے مذہبی اسکالر اور جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا خالد ولید سیفی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ سیاست کی بنیاد یوسف عزیز مگسی نے 90سال قبل رکھا مگر ان 90سالوں میں بلوچ قومی صورت میں منظم ہونے اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے۔بلوچ سیاست اور صحافت ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ مربوط رہے ہیں۔
جب سیاست پر کھٹن وقت آیا تو صحافت بھی مشکلات میں گھرا رہا جس کی مثال ایک جانب اگر میر غوث بخش بزنجو جیسے سیاسی رہنماؤں کی قید و بند ہے تو دوسری جانب لالا صدیق جیسے رہنماؤں کی گرفتاری ہے پاکستان کے دوسرے علاقوں کی طرح بلوچستان کا صحافت صرف رپورٹنگ تک محدود نہیں رہا بلکہ ہماری صحافت نے ہمیشہ سیاست کی رہنما ئی کی ہے لالا صدیق کا ہم ذکر کرتے ہیں تو وہ صرف ایک صحافی اور اخبار کے مالک نہیں تھے بلکہ بلوچ سیاست کے صف اول میں ہر مشکل وقت میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ا ن کا تعلق غوث بخش بزنجو اور ان جیسے سیاسی رہنماؤں سے ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی سیاست 1928سے لے کر آج تک 4ادوار میں منقسم ہے۔1928سے1973بلوچ سیاست و صحافت کا ایک مکمل نظریاتی دور ہے اس دور کے لیڈراور سیاسی ورکرمکمل نظریاتی تھے۔73سے88 بلوچ سیاست کا دوسرا دور ہے اس دور میں بلوچ سیاست تقسیم در تقسیم کا شکار رہا مگر یہ تقسیم خالص نظریاتی بنیاد اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر تھا 88سے2000تک تیسرا دور ہے اور بدقسمتی سے یہ مفادات اور مراعات کا دور ہے۔
اس دور میں تقسیم محض مفادات اور انا پرستی کی بنیاد ہوئے جبکہ 2000سے آج تک یہ چوتھا دور ہے اس دور میں بلوچ سیاست اور صحافت نے مختلف کٹھن حالات اور نشیب و فراز کا سامنا کیا ہے نظریاتی سیاست اور مراعات و لالچ دونوں اس دور میں دیکھے گئے سیاست کو اس دور میں جان بوجھ کر پراگندہ بنانے کی کوششیں کی گئیں ۔انہوں نے کہاکہ بلوچ قوم کی مجموعی قربانیاں اور قوم پرستی کارجحان اس خطے میں سب سے زیادہ ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود ہم اپنے مقاصدمیں کامیاب نہ ہوسکے اس کا سب سے بڑ ا سبب ہماری داخلی کمزوریاں، عدم بردشت اور متفقہ قومی لیڈرکا نہ ہونا ہے حالانکہ بلوچ سیاست میں کئی جید اور بڑے پائے کے کمیٹڈ لیڈر پیدا ہوئے جو کسی بھی قوم میں نہیں دیکھے جاسکتے مگر ہم ان کو اپنا متفقہ قومی لیڈر نہ بنا پائے ہماری سیاست منصوبہ بندی اور کمنٹمنٹ سے ہمیشہ خالی رہی ہم نے بہ حیثیت قوم سیاسی پروگراموں کے ساتھ کبھی رغبت نہیں دکھائی حالانکہ نیشنل ازم سب سے زیادہ رہا ہماری کوتاہیوں، خامیوں اور کمزوریوں کا سلسلہ تقسیم در تقسیم اور انتشار کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
سیمینار سے معروف سماجی کارکن بجار بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ لالا صدیق کو محض صحافی کے طور پر دیکھنا ان کی ڈائنامکس شخصیت کے ساتھ زیادتی ہے کیوں کہ وہ صرف ایک صحافی نہیں تھے بلکہ وہ بی ایس او کے بانی اراکین میں شامل تھے ان کی جدوجہد محکوم قوموں کے لیئے مشعل راہ ہے۔ لالاصدیق کی ہمت، بہادری اور اعتماد نے ان کو امر کردیا ہے۔
بطور صحافی، مدبر، سیاسی کارکن ، سماجی رہنما، قومی دانش وراور ایک عظیم علمی شخصیت ان کے زندگی کا احاطہ کرنا مشکل نہیں ناممکن ہے وہ بلوچستان کی ہر جدوجہد کا ایک زندہ نام ہے۔بلوچستان کے سیاسی و سماجی معاملات اور قومی محرومی کے خلاف ان کی صحافتی جدوجہد ان کے اداریہ اور کالم میں بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ 1940کا دور ایک پر آشوب اور رومانٹک دور تھا اس دور میں لالا صدیق بلوچ سمیت کئی ایسے نام پیدا ہوئے جنہوں نے بلوچ سیاست، ادب اور صحافت کو بہت متاثر کیا ۔لیاری بلوچ سیاست، ادب اور موسیقی کا ہمیشہ مرکز رہا ہے لالا صدیق کراچی کا ایک ایسا ہیرا تھا جنہوں نے بعد ازاں بلوچستان کو اپنے روشن خیالات سے منور کیاگوکہ وہ جسمانی طور پر ہم سے الگ ہوئے مگر بلوچستان کے ہر گوشہ اور ہر سرکل میں لالا صدیق دکھتا ہے۔
سیمینار سے نیشنل پارٹی کے کارکن گلزار دوست، پی این پی عوامی کے رہنما التاز سخی، بی این پی عوامی کے ضلعی صدر کامریڈ ظریف ذدگ، تربت پریس کلب کے ممبر طارق مسعود، بلوچ شاعر حمل امین اور بی ایس او کے ضلعی صدر عظیم بلوچ نے بھی خطاب کیا۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض بی ایس او کے ضلعی رہنما کریم شمبے نے سر انجام دیئے۔
نوجوان بزرگ صحافی و دانشور صدیق بلوچ کی تقلید کر کے منزل کی جانب بڑھیں،بی ایس او سیمینار
وقتِ اشاعت : April 8 – 2019