|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان حکومت کے میرٹ کے دعوؤں کو سرکاری آفیسران نے دھجیاں بکھیردی، سرکاری آفیسران تعلیمی اداروں میں اجارہ داری قائم کرنے کیلئے اپنے من پسند افراد کو غیر قانونی طریقے سے عہدوں پر فائز کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔

ایک پروفیسر کا 21 کی بجائے 20 گریڈ پرکام کرنے کا اصرار،مذکورہ پروفیسر یونیورسٹی آف بلوچستان کے اخراجات پر جرمنی میں مائیکروبائیولوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے جس کی لاگت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے جس کامقصد یہ تھا کہ یہ پروفیسر ڈاکٹرجامعہ بلوچستان کے طالب علموں کو مائیکروبائیولوجی کی کلاسز دے سکیں ۔ جبکہ وہکنٹرولر امتحانات کا عہدے پرمستقل بنیادوں پر تعنیات ہونا چاہتے ہیں ۔ 

غریب صوبے کے کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود آفیسران صرف کرپشن کرنے کیلئے من مانی کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس پروفیسر کو 29 اگست 2015ء اگلے عہدے پر ترقی کو دی گئی تھی مگر وہ اس پوسٹ پر کام کرنے سے انکارکررہے ہیں۔ اور یہ پروفیسر 20 گریڈ میں رہ کرکنٹرولر امتحانات بننا چاہتا ہے جبکہ یہ عہدہ ان کے پاس عارضی طورپر موجود ہے مگر وہ اسے مستقل بنیادوں پر کنٹرولر امتحانات کا عہدہ لینا چاہتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق وائس چانسلریونیورسٹی آف بلوچستان اور سلیکشن بورڈ کی بھی سرپرستی انہیں حاصل ہے جبکہ آئینی طور پر اس کی کوئی گنجائش نہیں جب تک 1996ء کے آئین میں ترامیم نہیں کی جائے گی اس عہدے پر مذکورہ پروفیسر کو فائز کرنا غیر قانونی عمل ہوگا۔
کنٹرولرامتحانات کیلئے امیدواروں کی لسٹ میں اس پروفیسر کا نام شامل نہیں مگر اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں اس عہدے پر زبردستی تعینات کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ 

اطلاعات کے مطابق سلیکشن کمیٹی آج کنٹرولر امتحانات کے عہدے کیلئے اس پروفیسرکو چارج دینے کا فیصلہ سنائے گی جوکہ حکومت کی گڈ گورننس اور میرٹ پر سوالیہ نشان ہے ، حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اس عمل کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور تعلیمی ادارے میں غیر قانونی طریقے سے عہدوں پر تعیناتی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے ۔