کسی کے جسم پر کوئی کٹ لگ جائے اور اس حصے سے خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنے کے لیے کیا کیا جائے ۔ماضی میں گھریلو ٹوٹکے استعمال میں لائے جاتے تھے ،کوئلہ پیس کر کٹ والی جگہ پر لگا لیا خون تو بند ہوا مگر کوئلے کی سیاہی عمربھر کے لیے اپنا داغ اس حصے پر چھوڑ جاتا۔ کسی کے مسلز میں کچھاؤ آجاتا یا کوئی گر کر زخمی ہوجاتا تو ہلدی اور سرسوں کا تیل ملا کر اس حصے کو مالش کیا جاتا تب کہیں جا کر افاقہ ہوتا۔
یہ تجرباتی فارمولے گھروں میں بطور فرسٹ ایڈ کام آتیں۔ بزرگوں سے یہی چیزیں نسل درنسل منتقل ہوتی چلی گئیں ۔ لوگ ان ٹوٹکوں کو وقتاً فوقتاً بوقت ضرورت آزمانے لگے۔ جہاں چاہے ردوبدل کیا جہاں چاہا ٹوٹکے ہی رد کیے۔ طبیب دستیاب ہی نہیں تھے یہ کام حکیموں سے لیا جانے لگا۔ طبی امداد سے لے کر مکمل علاج تک تمام سلسلے حکیموں یا دیسی حربے آزمائے جاتے تھے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا تو لوکل کمہار ہاتھ آیا دیسی پٹی چڑھائی ۔ کچھ صحتیاب ہوجاتے ،بہت سوں کے حصے میں عمر بھر کا روگ آجاتا پھر کیا ہوتا کہ بندہ ہاتھ سے ہی معذور ہوجاتا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جب سائنس و ٹیکنالوجی نے ترقی کی ،لوگوں کی رسائی جدید ٹیکنالوجی تک آسان ہوئی تو دیسی ٹوٹکے اپنی موت آپ مر گئے۔ مگر ایک شعبہ ایسا بھی ہے جس کی ضرورت اب بھی محسوس کی جاتی ہے۔ وہ ہے ابتدائی طبی امداد کا۔۔۔ جو ’’ فرسٹ ایڈ‘‘ کے نام سے زبان زد عام ہو چکا ہے۔ فرسٹ ایڈ ہے کیا بھلا اور کیوں ضروری ہے کے حوالے سے یہی رائے سامنے آتی ہے کہ یہ ماہرین کی ایجاد کردہ چند فارمولے ہیں جو قدرتی آفات اور حادثات کے وقت کام آسکتے ہیں۔
وہ فوری مدد جو کسی زخمی یا بیمار شخص کو ایمبولنس یا ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے فراہم کی جاتی ہے۔ یہ ٹوٹکے اس وقت کارگر ثابت ہو سکتے ہیں جب انہیں سمجھنے کے لیے ماہر ٹرینر کی خدمات لی جائے بصورت دیگر تیکنیک جانے بغیر آزمودہ فارمولہ کسی کی جان لے سکتا ہے۔
ہمارے ہاں دہشتگردی کے واقعات کے مقابلے میں سڑک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد سالانہ پانچ گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ بنیادی وجہ بروقت ریسکیو کانہ ہونا بتایا جاتا ہے۔۔ خیر حکومت نے سڑک حادثات میں جانوں کا ضیاع کم کرنے کے لیے اقدامات کے طور پرایمرجنسی سینٹرز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر عملدرآمد ہو رہاہے۔ دیر آید درست آید۔ دوسری یہ کہ ہمارے ہاں فرسٹ ایڈ کا رجحان ہی موجود نہیں، حادثہ ہوجائے تو لوگ دماغی طور پر سُن ہو کر رہ جاتے ہیں کہ اب کیا کیاجائے۔
فرسٹ ایڈ ٹریننگ کیوں ضروری ہے؟ پی پی ایچ آئی بلوچستان نے اس کا آغاز اپنے عملے سے کیا۔ تین روزہ ٹریننگ کے تین سیشنز منعقد کیے گئے۔ سیشنز میں 80سے زائد ملازمین شریک ہوئے ۔ ٹریننگ کا خیال کیسے آیا یہی سوال ہم نے چیف ایگزیکٹیو آفیسر پی پی ایچ آئی بلوچستان عزیز احمد جمالی سے کیا تو کہنے لگے۔
’’بلوچستان میں سڑک حادثات اور قدرتی آفات کو دیکھتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ اس کی ضرورت ہر پروفیشنل آدمی کو ہے ہم نے ترجیحی بنیادوں پر اس کا آغاز پی پی ایچ آئی منیجرز اور سوشل موبلائزرز سے کیا ہے، آگے جا کرہم بی ایچ یو اسٹاف کو ٹریننگ فراہم کریں گے‘‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہا ں فرسٹ ایڈ مسنگ ہے وہ ڈاکٹرز جو ہسپتالوں میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں وہ بھی اس موضوع کو نظر انداز کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ضرورت ہر ایک کو ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کے ہائی ویز پر جہاں ایمرجنسی ریسپانس سینٹرز بن رہے ہیں ان کے لیے ہم ایکسٹرا پروفیشنل ٹریننگ کا بندوبست کر یں گے۔
محسن عزیز کوئٹہ کی سطح پر بطور فری لانس فرسٹ ایڈ ٹرینر کام کر رہے ہیں اس سے پہلے وہ ریڈ کریسنٹ کے ساتھ کام کر چکے ہیں کا کہنا تھا’’ بلوچستان میں قدرتی حادثات، سڑک حادثات، بم بلاسٹ اور قدرتی آفات حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ حادثات میں متاثرہ افراد بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب جان کی بازی ہار جاتا ہے۔ وکلاء کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ زیادہ تر زخمی ابتدائی طبی امداد نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئے اگر وہاں فرسٹ ایڈ تربیت یافتہ لوگ موجود ہوتے تو کچھ لوگوں کی جان بچ سکتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ جہاں سرکاری اسکولوں کو فرسٹ ایڈ ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے وہاں وہ اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کرتے ہیں اب تک وہ سیکورٹی اداروں کے علاوہ سرکاری اور غیرسرکاری اداروں، اسکول، کالجز کے طلبا و طالبات اور عملے کو ٹریننگ دے چکے ہیں۔’’ ٹریننگ لینے والوں سے جب سوال پوچھا جاتا ہے کہ حادثے میں اگر کسی کا ہاتھ ٹوٹ جائے تو اس وقت آپ کیا کریں گے تو وہ اپنا آزمایا ہوا وہ ٹوٹکا بتاتا ہے جو متاثرہ شخص کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سرے سے ہی فرسٹ ایڈ کے بنیادی اجزا کا ہی پتہ نہیں۔‘‘
ٹریننگ لینے والوں میں سے ایک عارف شاہ بھی ہیں وہ پہلی بار فرسٹ ایڈ ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ذہن میں فرسٹ ایڈ کا جو خاکہ پہلے موجود تھا ٹریننگ کے بعد وہ تبدیل ہو چکا ہے۔ ۔ ’’ کوئی بے ہوش ہو جائے تو اس وقت کو کیا کرنا چاہیے، کسی کا سانس رکا ہوا ہے تو کس طرح بحال کرنا ہے اگر کوئی زخمی ہوجائے تو خون کا بہاؤ کس طرح روکنا ہے، اگر کہیں آگ لگ جائے تو وہاں پھنسے لوگوں کو کس طرح باہر نکالنا ہے۔تمام گُر تربیت سے حاصل کیے اب ان فارمولوں کو آسانی سے اپلائی کر سکتا ہوں۔‘‘
آپ نے دیکھا ہوگا کہ دفاتر کے اندر ایک سرخ رنگ کا سلنڈر موجود ہوتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ اس سے انجان ہوتے ہیں کہ اس سلنڈر کا بنیادی مقصد ہوتا کیا ہے اور اسے استعمال میں کیسے لایا جاتا ہے۔ یہ ہے آگ بجھانے والا آلہ۔ لیکن اگر کوئی جان بھی لے مگر اس بات سے انجان رہے کہ اس کا استعمال کس طرح کیا جائے تو اس کے ہونے اور نہ ہونے میں کوئی فرق نہیں۔
کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو نہ ہی تربیت دی جاتی ہے کانوں کے اندر اکثر خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں خبر آتی ہے کہ فلانے کان کے اندر اتنے کان کن مر گئے۔ تربیت دیتے ان کی سیفٹی کا خیال رکھتے انہیں سیفٹی کے سامان مہیا کرتے تو شاید ان کی جان بچ جاتی۔
شہری دفاع کی تربیت حاصل کرکے نہ صرف اپنی زندگی بچائی جا سکتی ہے بلکہ دوسروں کی جان بھی بچائی جا سکتی ہے۔ قدرتی آفات، زلزلوں، طوفان، اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران جانی و مالی نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔دنیا بھر میں ہر سال شہری دفاع منایا جاتا ہے۔ جنگِ عظیم اول سے پہلے اس کی اہمیت سے لوگ انجان تھے زخمیوں کی بڑی تعداداس لیے ہلاک ہوگئی کہ انہیں بچانے کے لیے تربیت یافتہ رضاکار موجود نہ تھے۔
جنگِ عظیم اول کی تباہ کاریوں کے بعد لوگ اس نتیجے پر پہنچ گئے، یہ انتہائی اہم موضوع ہے۔ شہری دفاع کا عالمی دن رکھا گیا ،ادارے قائم کیے گئے شہریوں کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بلوچستان میں شہری دفاع سمیت بہت سے ادارے ایسے ہیں جن کا ڈھانچہ تو موجود ہے مگر کسی سے پوچھ لیں کہ شہری دفاع نام کا کوئی ادارہ بھی ہے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ آخر یہ ہے کیا بھلا۔
احتیاط کی طرف ہم بہت کم جاتے ہیں۔اب تو حادثات و واقعات ہماری زندگی کا لازمی جز وبن چکے ہیں اور ہمارے ہاں فرسٹ ایڈ کے حوالے سے باقاعدہ رسمی تعلیم کا رجحان موجود نہیں۔ اب اگر یہ موضوع اتنا ہی ضروری ہے تو کیوں نہ اسے سلیبس کا حصہ بنا یا جائے۔ دوسری صورت میں یوٹیوب پر موجود ہزاروں کلپس سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
مشکل کام ہے ہی نہیں یوٹیوب کا ویب پیج کھول دیا سرچ میں First Aid trainingلکھ کر کلک کیا فرسٹ ایڈ سے متعلق لاتعداد ویڈیوز آپ کے سامنے آگئے ایک ایک کرکے ویڈیوز دیکھ کر پریکٹس کرنا شروع کیا بشرطیکہ آپ کے پا س ٹرینر کی سہولت موجود نہ ہو اگر ٹرینر دستیاب ہے تو اس سے سیکھ لیں کیونکہ بہت سی باتیں آپ کو یوٹیوب بھی نہیں سکھاتا۔حکومتِ وقت کو بھی چاہیے کہ تربیتی پروگراموں کا کوئی سلسلہ شروع کرے اور شہری دفاع جیسے اداروں کو فعال کرکے ان کا دائرہ کار ضلعی سطح تک بڑھائے۔