|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2019

2015کو جب اسلام آباد گیا تو یہ شہر میرے لیے بالکل ہی انجا ن تھا۔ آدمی جب بھی دوسرے شہر چلا جاتا ہے تو شہر اس کے لیے بیگانہ ہوجاتا ہے وہاں کے لوگ، وہاں کا ماحول، یہاں تک کہ وہاں کا آب و ہوابھی۔ لیکن مجھے وہاں جلد ہی گھل ملنے کا موقع مل گیا رہائش کے لیے ہاسٹل تھے اور ہاسٹل کا معقول کرایہ مجھے وہاں رہنے کا موقع فراہم کر گیا۔ ہاسٹل کے قریب ایک ہوٹل تھا ’’کیفے کوئٹہ‘‘ کے نام سے۔۔ ہوٹلوں کے حوالے سے آپ جہاں بھی چلے جائیں کوئٹہ کا نام بہت زیادہ بکتا ہے اور ہوٹل مالک سے لے کر وہاں کام کرنے والے سبھی کوئٹہ یا دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ 

کوئٹہ کیفے کا عملہ اور مالک سبھی قلعہ عبداللہ کے تھے۔ یہ ہوٹل 24 گھنٹے کھلا رہتا تھا، ہوٹل میں تین شفٹیں چلتی تھیں تینوں شفٹوں میں کام کرنے والے مزدور بلوچستان ہی کے تھے۔ ہوٹل میں بیٹھا میں سوچوں میں گم تھا کہ سات نوجوان قریب ہی آکر بیٹھ گئے اور چائے کا آرڈر دے کر باتوں میں لگ گئے۔زبان ان کا بلوچی تھا۔ ’’ شما کجے جاہ منندئے؟‘‘۔ میرے سوال پوچھنے پر سب اپنی گفتگو چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوئے۔ سارے نوجوان کیچ سے تھے۔ اسلام آباد میں حصولِ علم کے لیے آئے تھے۔ 

کافی دیر تک گپ شپ چلتی رہی۔ پھر نگاہیں چند اور نوجوانوں سے دوچار ہوئیں جو شکل سے ہزارہ لگ رہے تھے۔ ہزارہ اپنی شکل و صورت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ان سے سلام و دعا کرنے کے بعد پتہ چلا یہ بھی اپنا علاقہ چھوڑ کر اسلام آباد حصولِ تعلیم کے لیے آئے تھے اور مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔پھر کوئٹہ کیفے ہماری دیوان جاہ بن گیا۔ 

اسلام آباد قیام کے دوران انگلش سیکھنے کا جنون سوار ہوا، اسی جنون نے مجھے نمل کی در و دیوار سے متعارف کروایا۔ جس کلاس میں میں نے داخلہ لیا تھا کلاس کا ایک طالبعلم آصف حسین بھی تھا۔ آصف حسین ورچوئل یونیورسٹی سے جرنلزم کر رہا تھا تھا جبکہ انگریزی کا شوق اسے نمل لے آیا۔وہ شروع شروع میں ہاتھ ملانے سے گریزاں تھا بعد میں جب شناسائی ہوئی تو دوست بن گئے۔ پھر یہ دوستی اتنی پکی ہوئی کہ آج بھی ایک دوسرے کو فون پہ یاد کرتے ہیں۔ 

آصف ہزارہ برادری کی دکھ بھری داستان سناکر افسردہ ہوجایا کرتا تھا۔ آصف کے توسط سے ہزارہ برادری کے دیگر نوجوانوں سے نشستیں جمتی تھیں سب کے دکھ ایک جیسے تھے۔ سب اپنے اپنے پیاروں کو کھو کر اسلام آباد آئے تھے۔ کہتے تھے کہ کوئٹہ تو اپنا محبت ہے اسلام آباد بس پناہ گاہ ہے۔ 

کوئٹہ کی بند دیواروں سے نکل کر وہ اسلام آباد کی فضا میں سانس لیتے تھے تو آزاد فضا میں سانس لے کر ان کے چہروں کے مسکان بحال ہوتے۔ محفلوں میں ان کے قہقہے لگتے۔۔ یہ وہ نوجوان تھے جن کے گھر والے خود کو دیواروں کے اندر بند کرکے ان کی حسرتیں لوٹانے کے لیے محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔ آصف کے والد چپلوں کا چھوٹا کاروبار کیا کرتا تھا۔ جس سے وہ اپنے گھر کااور آصف کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا کررہے تھے۔ 

ایک بار یوں ہوا کہ میری جیب میں فیس کم پڑ گئی تو پریشان ہوا کہ کس سے کہوں۔۔۔ پیسہ مانگنا بھی کسی ذلالت سے کم نہیں، آصف میرا چہرہ بھانپ گئے یوں لگا کہ میرا اندرونی خاکہ پڑھ چکے ہیں میری جیب میں فیس کی رقم ڈال دی اور کہنے لگے کہ غیر سمجھتے ہو کیا۔۔

آصف کا ایک رشتہ دار کسی کام سے اسلام آباد آیا ہوا تھا ضعیف العمر تھے۔ میں نے احوال پوچھا تو کہنے لگے ایک بیٹا کینیڈا میں ہے اور دو آسٹریلیا میں۔ میرا کل سرمایہ مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔ کئی سالوں سے ان کا چہرہ دیکھا نہیں ان کی دید کو اب آنکھیں ترس گئی ہیں۔۔ میں نے کہا بابا جی پھر تو ٹھیک ہے نا وہ وہاں خوش ہیں کہنے لگے وہ تو اپنی زندگی جی رہے ہیں مگر ان کے بنا میری زندگی دشوار ہے۔۔ ’’ یہ بھی کوئی زندگی ہے‘‘۔کئی بلوچ نوجوانوں سے ملاقات ہوتی تھی جو کئی سال گزر جانے کے باوجود اپنے گھر نہیں جا پا رہے تھے۔ 

وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ گھر والے ہماری آواز سن کر ہی خوش ہوجاتے ہیں کہ آپ لوگ دور ہو اور زندہ ہو یہی ہمارے لیے غنیمت ہے۔ سوچتا ہوں کہ درد تو سبھی کے ایک جیسے ہیں بس زاویہ ذرا مختلف ہے۔ کورس مکمل کرکے جب میں واپس بلوچستان آیا۔ تین سال کے دوران آصف کئی بار کوئٹہ آیا مگر ان سے ملاقات نہیں ہوپائی، کوئٹہ اپنا شہر ہوتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے انجان ہی بنے رہے، نہ ہی وہ کوئٹہ شہر آیا اور نہ ہی مجھے ان کے ہاں جانے کی توفیق ہوئی۔

ایسے لگا کہ جیسے کوئٹہ شہر ان کے لیے مقفل زدہ کر دیا گیا ہو۔ گزشتہ سال جب میرا دوبارہ اسلام آباد جانا ہوا تو ایک بار پھر سے ہم نے خوب جم کر محفل کی ایک دوسرے کی باتیں سنیں ماضی کو یاد کیا قہقہے لگائے۔ میں نے کہا دیکھ آصف ہم اپنے ہی شہر میں کتنے بیگانے ہوجاتے ہیں کہ ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے۔ کراچی میں ایک علاقہ ہزارہ برادری کی ہے ہزارہ گوٹھ کے نام سے۔اکثریت ہزارہ برادری کی ہے۔ 

زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو کوئٹہ کے حالات کے ستائے ہوئے ہیں علاقے سے نکلکر کراچی منتقل ہوئے ہیں کراچی ان کے لیے قدرے پرسکون شہر ہے۔ جہاں وہ آسانی سے کاروبار کر سکتے ہیں بلا خوف و خطر کہیں آجا سکتے ہیں نہ ہی انہیں سیکورٹی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی فرقہ واریت آڑے آتی ہے ۔۔ اور تو اور کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جن کی شادیاں غیر ہزارہ سے بھی ہوئی ہیں۔ 

تمام تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایک بات آج تک میرے پلے میں نہیں پڑی کہ کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے آخر خوفزدہ کون۔ وہ ہزارہ برادری جو کسی زمانے میں کوئٹہ کے کاروباری مراکز میں حصہ دار تھے۔ جن کی بڑی بڑی دوکانیں تھیں جو مختلف اداروں میں اچھی پوزیشنوں پر تھے انہیں مارکیٹ سے ایک ایک کرکے بے دخل کردیاگیا۔ 

اور حالات اس نہج تک پہنچا دئیے گئے کہ انہیں ایک ہی چاردیواری تک محصور کردیا گیا۔ اور جب بھی انہوں نے کچھ دیر کے لیے سکھ کا سانس لیا تو دکھ کا نوحہ ان کے پلو باندھ دیا گیا۔ گزشتہ روز ہزارہ برادری کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ مزدور طبقہ سبزی فروش جو ہزارہ برادری کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے اور اپنی پیٹ کا دوزخ بجھانے کے لیے سبزی منڈی آئے تھے۔ خود ہی کٹے ہوئے سبزی بن کر رہ گئے۔

ایک نوجوان علی ہزارہ کی تصویر نے ہر ایک کو دلدوز کیا کہ علی کا بچہ ابھی تک اپنے باپ کا چہرہ ذہن نشین کر ہی نہیں گیا کہ خون کے پیاسے جانوروں نے اس سے یہ حسرت چھین لی ۔واقعے سے ایک روز قبل صوبائی وزیر داخلہ کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش میں تھی کہ جناب کو امن و امان کے قیام پر سونے کا تاج پہنایا جا رہا تھا، اس واقعہ کے بعد سوچ رہا ہوں کہ اب اسے کونسا تاج پہنایا جائے گا۔

واقعے میں 20افرادجاں بحق ہو گئے اب یہ صرف 20افراد ہی نہیں تھے بلکہ 20خاندان تھے ۔ انہی سے ان کے گھر چل رہے تھے۔ سوچتا ہوں خون کی ایسی ہولی کوئٹہ یا بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہی کیوں کھیلی جاتی ہے۔ ہزارہ برادری کو کیا جینے کا حق نہیں۔ اور ذرا پتہ تو لگائیں کہ جینے کا حق چھیننے والے کون ہیں جو ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خون کی ندیاں بہاتے ہیں ۔

واقعہ کوئٹہ میں ہوتا ہے تو اس کے اثرات اسلام آباد کراچی اور دیگر علاقوں تک چلے جاتے ہیں جہاں ہزارہ برادری رہ رہی ہوتی ہے جہاں انسان رہتے ہیں تو کوئٹہ کے ساتھ ساتھ وہ بھی غم میں ڈوب جاتے ہیں جیتے جاگتے خواب مر جاتے ہیں۔ جب بھی ہزارہ برادری کے ساتھ ایسا واقعہ ہوتا ہے تو میرا دھیان فوراً اسلام آباد کے کوئٹہ کیفے کی طرف چلا جاتا ہے جہاں آصف ہوتا ہے آصف کے دوست ہوتے ہیں اور ان کے قہقہے ہوتے ہیں جو اچانک دکھ میں بدل جاتے ہیں۔