کوئٹہ : جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو سانحہ ہزار گنجی کے درد کو محسوس کرکے پہلی فرصت میں کوئٹہ آنا چائیے تھا۔آئین سے راہ فرار اختیارکی بجائے معاملات کو بہتر بنایا جائے۔ وفاق اختیارات صوبوں کو منتقل کرکے انہیں قومی ترقی کا حصہ بنائے۔
ان خیالات کااظہارانہوں نے پیر کو کوئٹہ پریس کلب میں جماعت اسلامی کے زیراہتمام ’’بلدیاتی نظام کیوں اورکیسے ‘‘کے عنوان سے منعقدہ مشاورتی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار میں بلوچستان نیشنل پارٹی ،پشتونخوامیپ،اے این پی،انجمن تاجران،کاکڑجمہوری پارٹی،تحریک نظریہ پاکستان،جے آئی یوتھ اور طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت اسلامی کوئٹہ کی جانب سے بلدیاتی اداروں سے متعلق بکھری ہوئی آراء کو سمیٹنے کیلئے سیمینار کا انعقاد خوش آئند ہے۔ بلدیاتی نظام ریاست اورجمہوریت کے استحکام کیلئے نرسری کی حیثیت رکھتا ہے جس کے ذریعے قیادت کاانتخاب کرکے ریاست کے بنیادکواستحکام بخشنا ہے، جلدبازی سے لیڈرشپ توپیدا کی جاسکتی ہے ملک وقوم کے مسائل کوسمجھ کر ان کاحل تلاش کرناممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاق ،چاروں صوبائی حکومتوں وسیاسی قیادت کوبلدیاتی اداروں وصوبے کادائرہ اختیار کاتعین کرناچاہئے آئین میں یہ چیزیں طے شدہ ہیں انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں یکسوئی نہ ہونے اور ذاتی پسندوناپسندپارٹی قیادت سے وفاداری کی بنیادپر لوگوں کے آگئے لانے کی وجہ سے بلدیاتی نظام مکمل طورپرناکارہ قومی سطح پر فکری بحران پیدا ہوا ہے، بلدیاتی اداروں کوبااختیاربنائے بغیر نتائج کاحاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کو سیاسی جماعتوں اورصوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں دینے کی بجائے الیکشن کمیشن کے اختیار میں دیا جائے اگر الیکشن کمیشن بہترحلقہ بندیاں نہ کرے تو اس کو عدالتی کٹہرے میں کھڑاکیاجائے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں اپوزیشن اورحکومتی کشمکش کی وجہ سے بلدیاتی کمیشن تک مکمل نہیں ہوپارہا جس کی وجہ سے ہرمعاملہ تاخیر کاشکارہوتاچلا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دورکے بلدیاتی نظام سے مکمل نہیں مگرکافی حد تک متفق ہوں کہ اس میں اختیارات تھے اورفنڈزکی تقسیم بہترطریقے سے ہوئی اور منتخب اداروں کوبااختیاربنایاگیاتھا ،اس نظام میں دوخرابیاں تھیں ایک مانیٹرنگ کانظام رکھا گیاتھا جو آپریٹ نہیں ہوسکا، اورفنڈزکے آڈٹ کانظام بنایاگیاتھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔
اس دورمیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے فنڈزکی تحقیقات کیلئے انظام بنایا جس کے مطابق آڈٹ کاکام شروع ہوا مگرچندپارٹیوں کے لوگ مشرف سے ملے اورانہوں نے آڈیٹرجنرل کو اس عمل سے روک دیا جس کی وجہ سے آج نیب ہرچیز کولپیٹ رہی ہے اس کا یہ پورا نظام اس کی سرگرمیوں نے ملک کو جام کیاہو ہے ،کرپشن اوررشوت کا ریٹ بڑھ گیا ،سرکا ری ادارے اندھے پن کے ساتھ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں کاروباری طبقہ پریشان اورصنعت کاپہیہ رک گیا ہے ،جب تک معالات کودیکھنے کیلئے ہمارے پاس نظام نہیں ہوگا اورہم اس کی مانیٹرنگ اورآڈٹ نہیں کریں گے تو اس کا نتیجہ لوگوں کو بھگتنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ سابق دورمیں حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے تیارنہیں تھی تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پربلدیاتی انتخابات کرائے گئے ،حکومت نے جان چھڑاکر انتخابات توکروادئیے مگر قانون کے تحت اداروں کوچلنے نہیں دیا نہ فنڈزاوراختیارات دیئے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت بلدیاتی نظام مکمل طورپرصوبوں کے دائریہ اختیارمیں ہے اگرحکومت اس نظام کو مستحکم نہیں کرتی تو یہ صوبے کے نمائندوں کی بدنیتی ہے ، جمہوری حکومتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں چیزیں بہترطریقے سے نہ ہوں تو معاملات میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو پہلی فرصت میں یہاں آناچاہئے تھا مگرآج ڈیڑھ سو گاڑیوں کے پروٹوکول میں کسی وفاقی وزیرکی آمد کاعلم ہوا،اس طرح کے واقعات کو صرف ایک کمیونٹی کاسانحہ سمجھ کر بلوچستان کی سیاسی قیادت کالاتعلق ہونا درست نہیں بلوچستان اوراس سرزمین کی وقار ہم سب کامشترکہ اثاثہ ہے اس دردکو سب کو محسوس کرناچاہئے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افرادکے معاملے میں لوگ پریشان اوربلکتے ہیں اس معاملے میں حکومت کوحل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سی پیک کے تحت8سالہ طویل مدت میں سردمہری کی صورتحال آئی ہے،اوقت کاتقاضا ہے کہ معیشت کی بہتری کیلئے امریکہ اورعالمی فنڈنگ کی بجائے اپنے گیم چینجرمنصوبے پرسنجیدگی سے توجہ دیں،اس عمل میں پسماندہ خصوصاً بلوچستان اس کامرکزاورحقدارہے اوراس کے زیادہ ترفوائد اورترقی وروزگار تعلیم کے مواقع نوجوانوں کو مہیاکئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ 1973کادستوربنیاد قانون فیڈریشن اوراس کے یونٹ ہیں،اٹھارہویں ترمیم کے تحت عدلیہ اورانتظامیہ کو الگ کرنے کامرحلہ مکمل ہوچکا ،اوردس سال کے اندرصوبوں کواختیاردیا جائیگابالآخردیگرمعاملات طے پاگئے ہیں ۔
اس سے راہ فراراختیارکرنے اورآئین سے کھلواڑکرنے کی بجائے چیزوں کوبہتربناناچاہئے انہوں نے کہا کہ وفاق کو اختیارات اپنے ہاتھ سے نکال کرصوبوں کوآگے آنے کاموقع دینا چاہئے صوبوں کو احساس شرکت اوراعتماد دے کر قومی ترقی کے پہیے کامضبوط حصہ بناناچاہئے
آئین سے راہ فرار کی بجائے معاملات بہتر بنائے جائیں ، وفاق اختیارات صوبوں کو منتقل کرکے انہیں قومی ترقی کا حصہ بنائے ، لیاقت بلوچ
وقتِ اشاعت : April 16 – 2019