کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیب پلی بار گین کے ذریعے منی لانڈرنگ کا ادارہ بن گیا ہے اور سلیکٹڈ حکومت بنانے اور چلانے میں اس کا اہم کردار ہے۔
،اس ادارے اور نیب کے کالے قانون کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں مصروف ہے۔دہشتگردی کے متاثرین کیلئے کچھ نہیں کیا جارہا جبکہ کالعدم تنظیموں اور دہشتگردوں کو ایمنسٹی اسکیم دینگے تو سوالات ضرور اٹھیں گے۔حکومت کو کالعدم تنظیموں کی بجائے دہشتگردی کے متاثرین کو قومی دھارے میں لانا چاہیے۔
پاکستان میں صدارتی نظام کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اگر زبردستی یہ نظام لانے کی کوشش کی گئی تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔وہ کوئٹہ میں ہزارگنجی سبزی منڈی بم دھماکے میں جاں بحق ہونیوالے ہزارہ برادری کے لواحقین سے اظہار تعزیت کے موقع پر گفتگو اور پارٹی کے صوبائی صدر کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر علی مدد جتک بھی موجود تھے۔
ہزارگنجی بم دھماکے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ بھی شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، دادا، ماموں اور والدہ کو شہید کیا گیا۔اس کے علاوہ پارٹی کے ہزاروں کارکن شہید ہوئے۔ اسی طرح ایسے ہی ہزارہ بھائیوں کا ایک بھی خاندان شاید ایسا نہ ہو جس کا کوئی فرد اس انتہاء پسندی، نفرت اور دہشتگردی کی وجہ سے شہید نہ ہوا ہو۔
ا س بات پر دکھ ہے کہ اتنا وقت گزرنے اوراتنی لاشیں گرنے کے باوجود آج تک ہمارا ملک ریاست اور حکومت فیصلہ نہیں کرسکی کہ کیا وہ شہیدوں کے ساتھ یا قاتل کے ساتھ ہیں۔ یہ افسوسناک بات ہے دونوں کے ساتھ نہیں بیٹھا جاسکتا۔حکومت اور ریاست اور ملک کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا وہ قاتلوں کے ساتھ ہیں یا شہیدوں کے ساتھ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک دن آپ کا وزیر داخلہ یہاں آکر کہتا ہے ۔
کہ ہم شہیدوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک ویڈیو موجود ہو جس میں وہ کہتا ہے کہ ان قاتلوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاسکتے جب تک ان کی حکومت ہے۔ کب تک یہ دوغلی پالیسی چلتی رہے گی۔ ہم کب تک یہ دہشتگردی برداشت اورکب تک اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔اس ظلم کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہم سب کو کرنا پڑے گا۔ کوئی اس سوچ اورانتہاء پسندی کے خلاف اکیلا نہیں لڑسکتا۔
لیکن ہم نے اپنے ملک ، مستقبل اور بچوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس سرزمین کو اس سوچ اور نفرت سے پاک کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد سیای قیادت اور ہر ادارے نے رائے دے کر متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ اس ذہنیت کے خلاف پورے ملک کو لڑنا چاہیے تھا لیکن ہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک ہم اس پر عمل نہیں کرسکے۔ قومی اسمبلی میں کالعدم گروہوں کے خلاف بات کرنے پر ہمیں ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔
کیا ہم ملک دشمن ہیں جو ہم شہیدوں ، مظلوموں اور اقلیتوں کے لئے تحفظ مانگتے ہیں یا وہ ملک دشمن ہیں جو ہمارے اور بچوں کو قتل کرنیوالی کالعدم تنظیموں کو کو سیاسی فائدے کیلئے قومی دھارے میں لانے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کی ساری قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ قومی دھارے میں لانا ہے تو دہشتگردوں کے متاثرین کو لائیں ان کالعدم تنظیموں کو نہیں۔ہزارہ برادری کو قومی دھارے میں لائیں ان کی معیشت کا خیال رکھیں۔ جب تک پاکستانی ریاست اور حکومت شہیدوں اور قاتلوں کے ساتھ بیٹھتی رہے گی تب تک ہم انصاف نہیں ملے گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وعدہ کرنے کیلئے آیا ہوں میں بھی شہید کا بیٹھا ہوں چین سے نہیں بیٹھوں گا اپنی پوری سیاسی جدوجہد اس بات کیلئے کروں گا کہ ہم سب کے ملک کو اس ذہنیت انتہاء پسندوں اور ان ظالموں سے پاک کریں تاکہ آپ کے بچوں بھائیوں بہنوں اور والدین کو تحفظ ملے اور ہم امن، بھائی چارے اور سکون کے ساتھ اس ملک میں اپنی زندگی گزار سکیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ آپ سب کو ہمت دیں۔
بار بار یہ ظلم ہورہا ہے کربلا برپا کیا گیا ہے۔ہم نے سب نے ملک کر پاکستان کے مظلوم عوام کو تحفظ دینا ہوگا۔ جس بھی ظالم ،دہشتگرد اور انتہاء سے ٹھکرانا پڑے سب سے آگے پیپلز پارٹی اور آپ کا بھائی ہوگا۔دریں اثناء پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر علی مدد جتک کی رہائشگاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے جب بھی کوئٹہ آنا ہوا تو تعزیت کیلئے آیا۔
بار بار کوئٹہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشتگردی اور انتہاء پسندی کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کی سارے سیاسی جماعتیں اور اداروں نے ملکر بیٹھ کر اے پی ایس واقعہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا تھا۔ یہ ایک کنکریٹ روڈ میپ تھا جسے دہشتگردی انتہاء پسندی اور کالعدم تنظیموں کا مقابلہ کرنے کیلئے استعمال کرسکتے تھے مگر بد قسمتی سے ہماری حکومت اور ریاست یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ شہیدوں کے ساتھ کھڑے ہیں یا قاتلوں کے ساتھ۔
حکومت دونوں کے ساتھ بیٹھتی ہے اور دونوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔یہاں کوئٹہ میں ہزارہ ٹاؤن میں دہشتگردی کے متاثرین کے ساتھ حکومتی نمائندے نظر آتے ہیں اور بیان دیتے ہیں کہ شہیدوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور انصاف کرینگے مگر وہ فوٹیجز بھی موجود ہیں جہاں یہی وزیر یہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت میں کوئی بھی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے۔
ہم بحیثیت ملک اس کے متحمل نہیں کرسکتے کہ ہم بطور ریاست قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان اور پوری دنیا کو کالعدم تنظیموں کی مین اسٹریٹنگ کی بات کرکے کیا پیغام دیا جارہا ہے۔ سوال ضرور اٹھیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشتگردوں اورکالعدم تنظیموں کیلئے مین اسٹریمنگ اور جو متاثرین کیلئے ہم کچھ نہیں کرتے۔ ان کو ہم تحفظ بھی نہیں پہنچاسکتے۔
ان کو ہم انصاف نہیں دلاسکتے۔ یہ کیا اورکس قسم کا پیغام دیا جارہا ہے۔ ہمیں کتنا خون بہانا پڑے گا۔ ہمارے خون کی قیمت کیا ہے۔کیا ہم اگر دہشتگردی کو کرپشن میں شامل کریں اگر ہم کہیں کہ اگر دہشتگردی بھی کرپشن ہے تو پھر یہ ملک اور حکومت سنجیدہ ہوگی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت نے دس سال تک دہشتگردی کے خلاف لڑنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف کام کرنے پر لگادیا۔پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے کے بعد سویلین انٹیلی جنس ادارے آئی بی کے سینئر آفیسر ان نے استعفیٰ دیدیا کیونکہ ان پر حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین کے خلاف کام کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔
یہ ہے حکومت کی سنجیدگی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو جب بھی موقع ملتا ہے ٹی وی پر آتاہے تو کہتا ہے کہ کالعدم تنظیموں اور اور دہشتگردی کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے ہمارے پاس نیشنل ایکشن پلان ہے اورہم ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ میں سوال پوچھتا ہوں کہ ہمارے وزیراعظم نے آج تک نیکٹا کمیٹی کا کوئی اجلاس بلایا ہے اورکیا آج تک نیشنل ایکشن پلان کے ایک بھی نکتے پر کام کیا ہے ۔
چار دن گزرنے کے باوجود اس ملک کا وزیراعظم جو اس ملک کا وزیر داخلہ بھی ہے وہ کوئٹہ اور بلوچستان نہیں پہنچا۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی شہیدوں کی جماعت ہے جس نے آمروں اور دہشتگردوں کا مقابلہ کیا ہے اس جدوجہد میں ہمارے ہزاروں کارکن شہید ہوئے۔ شہیدوں کے خاندان سے ہوں اورشہیدوں کا دکھ درد جانتا ہوں ان کیلئے انصاف چاہتا ہوں ان معصوم بچوں اور شہریوں کے قاتلوں کو عدالتوں میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
ہر قاتل کو سزا اور مظلوم کو انصاف ملنا چاہی۔ یہ کس قسم کا نظام ہے جہاں دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں کیلئے ایمنسٹی ہے۔ بڑے بڑے دہشتگردوں کو ریسٹ ہاؤس میں رکھا جاتا ہے۔ حکومت ساری کی ساری اپوزیشن چاہے وہ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا پشتونخوا کی سیاسی جماعتیں ، ان کے رہنماؤں کو تو سزائیں دے کر جیل بھیج سکتی ہیں مگر قانون ، عدلیہ اور نظام میں یہ طاقت نہیں کہ چند کالعدم تنظیموں کے خلاف کچھ کرسکے۔
ان تنظیموں کو پوری دنیا دہشتگرد کہہ رہی ہیں انہوں نے ہمارا اور آپ کا امن خراب کیا۔یہ بے بسی اور یہ ناکامی یہ کس کا قصور ہے اس کا احتساب کب ہوگا۔۔انتخابات میں مستونگ، کوئٹہ، ڈی آئی خاناور پشاور میں چھ بم دھماکے ہوئے۔ میں نے اسمبلی کی پہلی تقریر میں ان واقعات کی تحقیقات اور تفتیش کا مطالبہ کیا۔ عوام کوبتانا چاہیے کہ کس نے یہ دہشتگردی کے واقعات کس نے کئے اور آپ نے کس کو پکڑا۔
آج تک کوئی جواب نہیں دیاگیا۔ انہوں نے کاہ کہ میں پہلے بھی ہزارہ ٹاؤن آیا اور ان سے تعزیت کی ان کے قبرستان پر گیا میں کب تک آتا رہوں گا اورکب تک ان کے ساتھ تعزیت کرتا رہوں گا۔ کب تک ہم اپنے شہیدوں کو دفن اور انصاف مانگتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست اورحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں اور انتہاء پسندوں کا مقابلہ کرے۔
اگر ہم نے اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانا ہے اوراگر اس ملک اور خطے کو امن دینا ہے اور معاشی ترقی دیکھنی ہے تو پہلی شرط یہ ہوگی کہ امن ہو۔ اور امن کو حقیقت بنانے کیلئے ہمیں انتہاء4 پسندی اور دہشتگردی کے خلاف کارروائی کرنی پڑے گی۔ پوری ریاست اور حکومت کو ایک زبان میں بولنا پڑے گاکہ بس آج کے بعد ہم دہشتگردی کے واقعات کو برداشت نہیں کرینگے۔
جب تک ہم یہ اتفاق رائے نہیں بنائیں گے اورجب تک پاکستان کی قیادت اس مسئلے کو سنجیدگی نہیں لے گی تب تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔انہوں نے کہا کہ میں جب قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہتا ہوں کہ ہمیں کالعدم تنظیموں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ مین اسٹریمنگ کیا ہے تو پھر حکومت مجھے ملک دشمن قرار دیتی ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ملک دشمن کون ہے۔
کیا ہم ملک دشمن ہیں یا وہ ملک دشمن ہیں جو محب وطن کے سرٹیفکیٹ بانٹے رہتے ہیں سیاسی مخالفین کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں مگر مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام یہ چاہتی ہے کہ یہاں امن ہو۔انہوں نے کہا کہ سننے میں آرہا ہے کہ ایسے شخص کو وزیرمملکت بنایا جارہا ہے جس پر ڈینیل پرل سے لیکر شہید محترمہ بینظیر بھٹو تک کے قتل کا الزام ہے۔
ایسے لوگوں کو کابینہ میں لانا عوام کی توہین ہے۔یہ پورے پاکستان اور دنیا کیلئے پیغام ہے کہ ہماری حکومت پاکستان دہشتگردی اور انتہاء پسندی اور کالعدم تنظیمیں غیر سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جو انتہاء پسندیا ور کالعدم تنظیموں کا مقابلہ کرنا جانتی ہے عوام کو تحفظ پہنچانا جانتی ہے۔ جمہوریت اور اصل سیاسی جماعتیں ہی اس نقصان کا ازالہ کرسکتی ہے۔
انشاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں جب ہمیں ایک پرامن اور ترقی پسند پاکستان ملے گا۔انہوں نے کہا کہ پہلے احتساب اورپھر انتخاب کا نعرہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو ،بینظیر بھٹو اور پھر نواز شریف کے دور میں بھی دیکھا۔ آخر میں یہ انتخابی نعرہ بن گیا۔ نیب کا قانون سیاسی انجینئرنگ کیلئے بنایا گیا ہے۔یہ آمر کا بنایا ہوا کالا قانون ہے۔2002ء میں سلیکٹڈ حکومت کو بنانے میں نیب کا اہم کردار تھا اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔
کہ سلیکٹیڈ حکومت کو بٹھانے اور چلانے میں نیب کا اہم کردار ہے۔ کرپشن کو ختم کرنے کیلئے پہلے اس قانون اور نیب کو ختم کرنا پڑے گا اور ایسا نظام لانا پڑے گا جس میں سب کیلئے ایک قانون ہو۔ کراچی، لاڑکانہ، کوئٹہ اور لاہور کا رہنے ولا ہو یا پھر فوجی ہو، جج یا یا سیاستدان سب کیلئے ایک ہی قانون ہو۔انہوں نے کہا کہ پلی بارگین اور رضا کارانہ پیسوں کی واپسی کا قانون نیب کو خود منی لانڈرنگ کا ادارہ بناتا ہے۔
اس کے تحت پسندیدہ چور کو آپشن دیا جاتا ہے کہ دس سے پندرہ فیصد فیصد دے کر تمام کالا دھن سفید کرلو۔ ہم انصاف اور شفافیت پر مبنی احتساب کے نظام کے حامی ہیں اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی مگر انتقام پر مبنی احتساب قبول نہیں۔ ایک سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کا ہر وعدہ جھوٹا ، ہر نعرہ دھوکا نکلا اور ہر بات پر یوٹرن لیا۔حکومت کو ملک کی خدمت، انتہاء پسندی اور دہشتگردی کا مقابلہ اور معاشی ترقی پر تروجہ دینی چاہیے۔
ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھروں پر توجہ دینی چاہیے مگر بد قسمتی سے یہ اپوزیشن کو نشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عوام ان کے دھوکے ، جھوٹے اور یوٹرنز سے واقف ہوچکے ہیں اور ان کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپوزیشن کے ساتھ کھیلی جارہی ہے مگر اپوزیشن تقسیم نہیں۔اپوزیشن جماعتیں اپنی شناخت اور اپنے نظریے کے ساتھ کام کررہی ہیں۔
مگر معاشی، جمہوری اور انسانی حقوق پر پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جمعیت علماء اسلام سمیت اپوزیشن کی جماعتیں متفق ہیں۔حکومت کے خلاف تحریک چلانا ہمارا جمہوری حق ہے چاہے ایک ماہ بعد چلائے یا ایک سال بعد۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل ہی ہمارا مؤقف تھا کہ کٹھ پتلی حکومت لائی جارہی ہے اور ہماری یہ بات درست ثابت ہوئی۔
ایک اور سوال انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے چیئرمین نیب کے انتخاب کے طریقہ کار کو بہتر بنایا ہمیں امید تھی کہ اس کا بہتر نتیجہ نکلے گا مگر نیب کا قانون اور ادارہ ایسا ہے کہ فرشتہ بھی بٹھائے تو انتقامی سیاست اور سیاسی انجینئرنگ شروع ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف پارلیمانی نظام کے ذریعے ہی صوبوں اور عوام کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی ملتی ہے۔
صدارتی نظام اس ملک میں نہیں چل سکتا۔جمہوری نظام میں یہ لوگ صدارتی نظام نہیں لاسکتے۔ 1971ء میں ملک ٹوٹا اگر دوبارہ ون یونٹ اور صدارتی نظام لایا گیا تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
پاکستان میں صدارتی نظام نہیں چل سکتا،حکومت نے دہشتگردی کیخلاف لڑنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کے پیچھے لگا دیا ہے،بلاول بھٹو
وقتِ اشاعت : April 17 – 2019