کوئٹہ: بلوچستان میں 6سے 16سال کی عمر کے بچوں کی شرح ناخواندگی 28%فیصد ہونے کا انکشاف 6سے 16سال کی عمر کے 72%فیصد بچے سکولوں میں پڑھنے کے باجود کچھ زیادہ سیکھ نہیں رہے۔
بدھ کے روز بوائز اسکا?ٹس کوئٹہ میں غیر سرکاری تنظیم کے آٹھویں سالانہ رپورٹ کی تقریب رونما کی گئی رپورٹ 2040رضا کاروں نے ملک بھر کی اہم سول سوسائٹی/نیم خود مختار اداروں اور بہت سی تنظیموں کے تعاون سے کیا۔سروے میں47325بچوں کے بارے میں تفصیلی معلومات اکٹھی کر کے، مرتب کی گئیں ہیں۔ سروے 1020دیہاتوں میں20400گھرانوں کا انفرادی طور پرکی گئیں ہیں۔
سروے میں 34دیہی حلقوں میں کیا گیا جہاں 5سے 16سال کی عمر کے47325بچوں کی زبان(اردو),انگریزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا۔ سروے سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سید تسنیم اختر اور سید تنظیم نے کہا کہ اس رپورٹ کا مقصدآئین کی شق25/Aجو کہ تعلیم کو 5سے 16سال کے بچوں کا بنیادی حق قرار دیتی ہے کہ حوالے سے 2010سے اب تک ہونے والی کسی بھی پیش رفت یا اس کی کمی کو سامنے لانا ہے۔
اب تک اس شق کا کہیں عملی نفاذ نہیں ہوا کیونکہ اس سے متعلق قوانین اور قوائد ابھی تک کہیں خلا میں ہی ہیں۔ عوامی مطالبے کے باوجود تعلیم کو بنیادی ضرورت سمجھنے کے حوالے سے ریاست کا ردعمل بہتر سے بہتر الفاظ میں لا پرواہی کہا جا سکتا ہے۔
پارلیمنٹ کے عام اراکین اور وزراء4 بطور ذمہ داران کے خود احتسابی کے وعدے کیے تھے مگر ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔سکول نہ جانے والے بچوں کا تناسب2016کی نسبت اس سال کم ہوا ہے2018میں سکول نہ جانے والے بچے 28% جبکہ2016میں شرح35%تھی اس رپورٹ سے یہ بھی واضع ہوتا ہے کہ سرکاری شعبے کی نسبت نجی شعبہ میں طلبہ کی کارکردگی بہتر رہی۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کی انگریزی ، ریاضی اور زبان کی تعلیمی معیار کی حالت نا گفتہ بہ ہے کلاس پنجم(5)کے تقریباََ 60%بچے کلاس دوئم (2)کی سطح کی اردو کہانی نہیں پڑھ سکتے تھے۔ سروے کی گئی کلاس پنجم (5)کے 34%طلباء4 انگریزی کے فقرے پڑھ سکتے تھے جو کہ دراصل کلاس دوئم (2)کے طلبا ء4 کو آنے چاہیے تھے۔ بچوں میں بالکل اسی طرح کا رجحان ریاضی کے تعلیمی معیار میں بھی نظر آیا جہاں کلاس پنجم (5)کے 43%بچے دو اعداد تک تقسیم کے سوالات حل کر سکتے تھے اور اس میں سے کچھ سوال کلاس دوئم (2)کے نصاب کا حصہ تھے۔
اثر سروے کے ذریعے یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ نجی سکولوں میں داخل طلباء4 مقابلتاََ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے بہتر کار کردگی دکھا رہے تھے۔ نجی سکول میں کلاس پنجم (5) کے46 %بچے اردو کہانی پڑھنے کے قابل تھے جبکہ سرکاری سکول میں اس کی شرح 40%تھی۔
انگریزی کے تعلیمی معیار میں بھی فرق واضع طور پر دیکھا گیا۔ نجی سکولوں کے کلاس پنجم (5)کے 51%بچے کلاس دوئم (2)کی سطح کے فقرے پڑھ سکتے تھے جبکہ سرکاری سکولوں کے بچوں میں یہ شرح 34%تھی۔بچوں کے جائزے کے ساتھ یہ رپورٹ بلوچستان کے تمام اضلاع میں سکولوں کے کام کرنے کی حالت زار کو بھی بیان کرتی ہے۔
اثر سروے ہمیں بتاتا ہے کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی حاضری 93%تھی جبکہ نجی سکولوں کے اساتذہ کی حاضری 96%تھی نیز سرکاری سکولوں میں زیادہ تعلیم یافتہ اساتذہ موجود تھے مثال کے طور پر نجی سکولوں میں 45%اساتذہ بی۔اے تک تعلیم یافتہ تھے جبکہ اس کے مقابلے میں سرکاری سکولوں میں یہ شرح 32%تھی۔
تاہم MA/MScیا پوسٹ گریجویٹ تعلیمی قابلیت کے ضمن میں صورتحال بھی ایسی ہی تھی جبکہ سرکاری شعبہ کا اساتذہ کے اوسطََ بڑی تعداد نجی شعبہ کے مقابلہ میں بہتر تعلیمی قابلیت کی حامل تھی لیکن کیا تعلیمی قابلیت ،تدریس اور رویوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے؟
ان تمام سکولوں میں کثیر جماعتی معلمی کا رجحان بڑا دلچسپ نظر آیا۔ اثر کے سروے کردہ 56%سرکاری سکولوں میں اور 5%نجی سکولوں میں کلاس دوئم (2)میں کثیر جماعتی معلمی کا رجحان پایا گیا۔بِلا شبہ اثر نے ،نچلی سطح سے اْپر تک تبدیلی کے لیے عملی ا قدامات کرنے کی آواز اْٹھانے او ر قومی سوچ بدلنے کے لیے ،ایک منفرد کردار ادا کیا ہے۔
صنفی برابری ،سیکھنے کے عمل ،منصوبہ بندی اور پالیسی کے لیے مختلف حلقے بندیاں بنانے ،پائیدار ترقی کے مقاصد اور آرٹیکل25A کے لیے پچھلے کئی سالوں سے اثر ایک طاقت ور گفتگو کاذریعہ رہا ہے۔
بلوچستان ،28فیصد بچے سکولوں سے باہر 72فیصد پڑھ کر بھی کچھ نہیں سیکھتے ، رپورٹ
وقتِ اشاعت : April 18 – 2019