|

وقتِ اشاعت :   April 26 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان کے پاک افغان سرحدسے ملحقہ شہر چمن میں نامعلوم افراد نے پولیو ٹیم پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک خاتون رضا کار جاں بحق جبکہ دوسری زخمی ہوگئی۔

لیویز حکام کے مطابق پولیو ٹیم پر حملہ چمن کے علاقے دامان میرالزئی میں جمعرات کی دوپہر کو اس وقت پیش آیا جب ٹیم میں شامل خواتین انسداد پولیو مہم کے سلسلے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کیلئے ایک گھر میں داخل ہورہی تھیں۔لیویز رسالدارچمن محمد حنفیا نے بتایا کہ دو خواتین پولیو اہلکاروں پر دو نامعلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں چلائیں۔

سر اور سینے میں گولیاں لگنے سے نسرین بی بی دختر مقصود احمد اعوان موقع پر ہی جاں بحق اورراشدہ بی بی زوجہ افضل اعوان زخمی ہوگئیں۔ مقتولہ کی لاش چمن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچائی گئی زخمی خاتون کو علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔زخمی کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

پولیو ٹیم کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ متاثرہ علاقے میں پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے کوئی سیکورٹی اہلکار تعینات نہیں تھا۔ اْن کے بقول چند لیویز اہلکاروں کو صرف گشت پر مامور کیا گیا تھا۔

تاہم لیویز رسالدار محمد حنیفا نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیو ٹیم کی حفاظت پر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے مگر وہ کچھ فاصلے پر موجود تھے جس کا موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں نے فائدہ اٹھایا اور سیکورٹی اہلکاروں کے پہنچنے سے قبل ہی وہ فائرنگ کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں انسداد پولیو ٹیم پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل جنوری 2018ء میں دو خواتین پولیو ورکرز جبکہ نومبر 2014ء میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اسسٹنٹ کمشنر چمن سید سمیع آغا کے مطابق لیویز کے اہلکاروں نے علاقے کی ناکہ بندی کر کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جبکہ متاثرہ علاقے میں پولیو مہم عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔دوسری جانب پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کوآرڈینیٹر راشد رزاق کے مطابق ملک گیر انسداد پولیو مہم میں بلوچستان میں 24 لاکھ 69 ہزار بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

ان کے بقول مہم کا پہلا دن معمول کے مطابق گزرا تاہم دوسرے دن پشاور میں پیش آنیوالے واقعے کے بعد افواہیں پھیلنے کے باعث انسداد پولیو ٹیموں کو بعض علاقوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

راشد رزاق نے مزید بتایا کہ کوئٹہ میں گزشتہ مہمات کے دوران بھی تین سے ساڑھے تین ہزار ایسے کیسز سامنے آتے رہے ہیں جن میں والدین بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیتے تھے۔تاہم اس بار اس تعداد میں 50 فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اور اب کوئٹہ کے ساتھ ساتھ قلعہ عبداللہ اور پشین کے علاقوں میں بھی ایسے والدین کی تعداد بڑھ گئی ہے جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پشاور واقعے کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے ہماری ٹیمیں مقامی سطح پر کام کر رہی ہیں۔راشد رزاق کے مطابق قلعہ عبداللہ اور چمن میں جمعیت علماء اسلام کے ایک سابق سینیٹر سمیت بعض سیاستدانوں کی جانب سے منفی بیانات کی وجہ سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے کمشنر کوئٹہ اور ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ کو کہا ہے کہ وہ ان لوگوں سے بات کر کے مسئلہ حل کریں۔’ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ شفقت انور شاہوانی کے مطابق پاک افغان سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ اور اس کے سب سے بڑے شہر چمن میں تین ہزار سے زائد بچوں کے والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔

گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ضلعے میں ایک لاکھ 47 ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے تھے مگر پشاور میں پولیو کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹا پراپیگنڈہ چلنے کے باعث ان کے لیے ہدف پورا کرنا مشکل ہو گیا۔تین روزہ انسداد پولیو مہم بدھ کو ختم ہونا تھی تاہم نئی صورتحال کے پیش نظر مہم میں ایک ہفتے تک کی توسیع کردی گئی ہے۔

شفقت انور کے بقول والدین کو پولیو کے قطرے پلانے پر آمادہ کرنے کے لیے وہ قبائلی عمائدین اور علماء کرام کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔کوئٹہ میں نجی سکولوں کے مالکان کی تنظیم پرائیوٹ سکول گرینڈ الائنس نے بھی پشاور واقعے کے بعد تنظیم سے وابستہ بلوچستان کے تمام نجی سکولوں میں پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔

تنظیم کے ترجمان نذر بڑیچ نے بتایا کہ انہیں کئی سکولوں سے یہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر والدین سکول انتظامیہ سے لڑتے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے اپنی ذمہ داری پر بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ سکولوں کی بجائے گھروں میں والدین بچوں کو اپنی مرضی اور موجودگی میں قطرے پلائیں۔

تاہم ان کے مطابق ‘بعد میں ہم نے انسداد پولیو حکام سے مذاکرات کر کے طے کیا کہ ہم اس مرتبہ سکولوں میں بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلائیں گے مگر کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کی ذمہ داری پولیو ٹیم پر عائد ہو گی۔

‘پولیو ایمرجنسی سینٹر کے کوآرڈینیٹر کا کہنا ہے کہ بیکن ہاؤس جیسے بعض بڑے نجی ادارے بھی پولیو مہم کا حصہ نہیں بنتے اس لیے ہم نے محکمہ تعلیم سے کہا ہے کہ ان سکولوں کو واضح اور تحریری احکامات کے ذریعے ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ انسداد پولیو مہم میں ہمارا ساتھ دیں۔