تربت: کمشنر مکران ڈویڑن کیپٹن (ر) طارق زہری نے کہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں خواتین کا کردار کلیدی اور انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، انہوں نے کہا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کا شمار معاشرے کے ذمہ دار طبقے میں ہوتا ہے اور وہ اپنا کام پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرتی ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے تربت یونیورسٹی میں فیمیل ایجوکیشن اینڈ وومن امپاورمنٹ کے موضوع پر منعقد سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس دوران انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مکران ڈویژن میں خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کا تناسب صوبے کے دیگر علاقوں سے زیادہ اور وہ امید کرتے ہیں کہ یہاں کی خواتین تربت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملک کے کونے کونے میں صوبے کا نام روشن کرینگے۔
گوادر میں بلوچستان کی تاریخ کا سب سے پہلی خواتین لیویز تھانہ کھولنے جارہے ہیں جہاں پر لیویز اسٹاف گوادر کے مقامی بلوچ خواتین ہوں گی انہوں نے سیمینار میں موجود خواتین پر زور دیا کہ وہ مکران کی نائب تحصیل دار کی خالی آسامیوں، پٹواری اور دیگر ریوینو اسٹاف کی اسامیوں کی بھرتی کے لیے مقابلہ میں حصہ لیں وہ مکمل طور پر انکو سپورٹ کرینگے۔
اس دوران انہوں نے تربت یونیورسٹی اور تربت شہرکے دیگرتعمیراتی منصوبوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تربت ایک بدلا ہوا مختلف شہر ہے اور مجھے یقین نہ ہوتا کہ یہ وہی بد حال اور کھنڈرات والا شہر ہے، شہر کا جو انفراسٹرکچر بنا ہے، یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کی دلکش اور بے نظیر عمارتیں قائم ہوئی ہیں یہ نہ صرف قلیل عرصہ کے اندر بنے ہیں بلکہ اسکی کوالٹی عالمی معیار کے مطابق ہے اور کسی کو یقین نہ ہوگا کہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ کے دورافتادہ علاقہ تربت میں یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے۔
سیمینار سے نیشنل پارٹی کے رہنماء چیئرمین حلیم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مفکر کا قول ہے کہ آپ مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دے دیں بدلہ میں میں آپکو ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا، انہوں نے کہا کہ خواتین معاشرے کا آدھا حصہ ہیں جو انتہائی اہم اور قائدانہ کردار کی حامل ہے جب تک ہم معاشرہ کے اس مساوی حصہ کو ترقی کے مواقع مہیا نہ کریں گے تب تک ہم بحیثیت قوم ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت کا ویژن ہے کہ خواتین کو تعلیم یافتہ بناکر ہی ہم اپنی قوم کی قومی بقاء کو یقینی بناسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ آج ہمارے معاشرے میں خواتین کی تعلیم کی جو ترقی یافتہ شکل ہے۔
اسکا کریڈٹ ہماری جماعت اور ہمارے لیڈرشپ کو جاتا ہے کیونکہ 1993 ء میں وزارت تعلیم ہماری جماعت کے پاس تھی تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بطور وزیر تعلیم ورلڈ بینک کے ایک پراجیکٹ کے ذریعے گاؤں گاؤں اسکول کی عمارتیں قائم کیں اور وسیع پیمانے پر اساتذہ بھرتی کئے اس زمانے میں ہمارے معاشرے میں موجود کوالٹی یہی تھی تو اسکی بنیاد پر فیمیل ایجوکیشن کے پروموشن کی بنیاد رکھی گئی۔
آج 30سال بعد یہ صورتحال ہے کہ اگر کوئی بچی اسکول نہ جائے اور گھر میں قید رہے تو یہ عیب ہوگی جبکہ اس زمانے میں بچی کا گھر سے نکل کر اسکول جانا عیب تھا۔
انہوں نے کہاکہ اگر سیاسی قیادت میں ویژن اور ویل ہو تو وہ کم ترین وسائل اور مختصر ترین عرصہ کے اندر بھی ایجوکیشن کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے جس طرح 2013ء کے بعد نیشنل پارٹی نے مختصر ترین وقت کے اندر یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی ادارے قائم کرکے ایک تاریخ رقم کی ہے۔
سیمینار سے ڈی ڈی او فیمیل ضلع کیچ زمرد واحد، ڈین ریسرچ فیکلٹی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض بلوچ، ڈین نیچرل سائنسز فیکلٹی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حنیف الرحمن بلوچ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ،سیمینار میں نظامت کے فرائض نظام مراد نے سرانجام دئیے۔