کوئٹہ: پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال نے کہا ہے کہ پاکستان کا کوئی مخالف نہیں لاپتہ لوگوں کوانکی ماؤں کے حوالے کرکے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ ملک میں اٹھارویں ترمیم پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہورہا ہے، سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہونے والا اچھی تقریر تو کرسکتا ہے غریبوں کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ چاروں صوبوں کی قومی اسمبلی کی نشستیں یکساں کرکے پروفیشنل فنانس کمیشن دیا جائے۔عوام نے مہنگائی کا صرف ٹریلر دیکھا ہے اصل مہنگائی تو آئی ایم ایف کے قرضہ پیکج لینے کے بعد آئے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں انیس قائم خانی، اشفاق منگی اور عطاء اللہ کرد کے ہمراہ کوئٹہ ائیر پورٹ اور سانحہ ہزار گنجی میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو اور پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مصطفی کمال نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں نے پہلے دن سے پی ایس پی کو بہت زیادہ پذیرائی دی ہے کوئٹہ سندھ کے بعد پی ایس پی دوسرا بڑا مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق لوگوں کے دلوں میں چبھے والے کانٹے کو نکال کر جلد از جلد لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔
ریاست نے ماں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جس طرح بلوچستان میں بہت سے لوگوں کو پہاڑوں سے اتا کر انہیں گلے لگاکر قومی دھارے میں شامل کیا اسی طرح ان لاپتہ افراد کو بھی ایک مرتبہ ان کی ماؤں کے حوالے کرکے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرے۔ بلوچ زیادتیوں پر ناراض ضرور ہیں مگر میرا ایمان ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان کیخلاف نہیں جانا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں پر لائٹ روزگار، لوگوں کو کھانے کیلئے روٹی رہنے کیلئے گھر میسر نہ ہو پانی بھرنے کیلئے مسافت طے کرنے میں پانچ گھنٹے لگتے ہوں وہاں یقینا ریاست نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے۔ ملک میں اختیارات اقتدار اور وسائل کو اسلام آباد تک منجمد کرکے وہاں بیٹھ کر بلوچستان کے پہاڑوں گلی کوچوں کے فیصلے کئے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت اختیارات اور وسائل بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کو منتقل کردیئے گئے ہیں مگر یہاں سے یہ اختیارات اور وسائل اضلاع یونین کونسلز کی سطح تک منتقل نہیں ہوئے۔ ملک میں اٹھارویں ترمیم اس لیے نہیں لائی گئی کہ ایک چوہدری سے چار چوہدری بن جائیں اٹھارویں ترمیم اس لیے لائی گئی تھی کہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے گلی محلوں دیہاتوں میں رہنے والے لوگ مسائل کے حل کیلئے اپنا نمائندہ منتخب کریں۔
ایسی اٹھارویں ترمیم کو نہیں مانتے جس سے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ اختیارات کو ضلعی سطح پر منتقل کرکے پروفیشنل فنانس کمیشن دیا جائے تو کوئی ہتھیار اٹھاکر پہاڑوں پر نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی چاروں اکائیوں کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کو یکساں کیا جائے۔ جب تک پنجاب کی نشستوں کا تناسب باقی صوبوں سے زیادہ رہے گا دیگر صوبوں کے لوگ ترقی سے محروم رہیں گے۔
جی ٹی روڈ سے جیتنے والا وزیراعظم بلوچستان کا دورہ سیلاب میں لوگوں کے مرنے یا کوئی بہت بڑا سانحہ رونما ہونے پر آتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ چاروں صوبوں کی حمایت سے وزیراعظم بنے نہ کہ پنجاب سے نشستیں جیت کر وزیراعظم بن جائے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں سے آنیوالے سیلابی ریلوں سے بلوچستان کے بہت سے اضلاع متاثر ہوئے ہیں لوگوں کی فصلوں کو نقصان پہنچا، وفاقی وصوبائی حکومتیں لوگوں کے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں اور انیس قائم خانی دو لوگ تھے جنہوں نے اپنی موت کا فیصلہ کرکے وقت کے فرعون کیخلاف اس وقت آواز اٹھائی جس قت سچ بولنے کی سزا کراچی میں موت تھی۔ ہمیں کہا گیا کہ تم لوگ گھر سے کیسے نکلوگے الحمد اللہ آج ہم کراچی سے کوئٹہ، گلگت بلتستان تک پہنچ گئے بلوچستان کے تمام اضلاع میں ہمارے ذمہ داران موجود ہیں۔
ماضی میں جن کی آنکھ کے اشارے سے پورا کراچی بند ہوجاتا تھا آج انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس شہر میں جہاں نفرت کی بنیاد پر نہ مارنے والے کو پتہ تھا کہ مرنے والا کون ہے نہ مرنے والے کو پتہ تھا کہ مارنے والا کون ہے وہاں آج امن قائم ہوچکا ہے ایسی نشستیں جیتنے کا کیا فائدہ جس سے علاقے اور لوگ تقسیم ہوں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم گزشتہ 32 سالوں میں گیارہ مرتبہ مہاجر کے نام پر انتخابات جیت چکی ہے سندھ میں 14 سالوں تک ایم کیو ایم کا گورنر عہدہ پر فائز رہا اس دوران 30 ہزار سے زائد نوجوانوں کی لاشیں الیکشن جیتنے اور جتوانے میں دفن ہوئیں ہے۔
الیکشن جیتنا اگر کامیابی ہے تو گیارہ مرتبہ الیکشن جیتنے والی جماعت کے لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس نکاسی آب کی پائپ لائن بچھانے تک کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا اور پی ایس پی کا نظریاتی اختلاف ہے میری ایم کیو ایم میں واپسی کا کوئی امکان نہیں یم کیو ایم سندھ اسمبلی میں مہاجر صوبے سے متعلق تقریر نہیں کر سکی وہ صوبہ کیا بنائیں گے مہاجر صوبے کا نام دیکر عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے شخص کو عام آدمی کے مسائل کا اندازہ سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا ہونے والا اچھی تقریر تو کرسکتا ہے عوامی مسائل حل نہیں کرسکتا۔ ہم وہ لوگ ہیں جو مسائل سے گزر چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اس نے چوری نہیں کی جسے موقع نہیں ملا اگر یہ درست ہے تو مجھے تو پھر ڈکیتی کرنے کا موقع ملاتھا تیس ہزار کروڑ روپے میں نے اپنے ہاتھوں سے خرچ کئے 9 سال بعد بھی میرے دشمن تین روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس پی الیکشن لڑنے یا جیتنے کی نیت سے نہیں بنائی تھی ہمارا مقصد لوگوں کو توڑنا نہیں جوڑنا ہے۔ نفرتوں کی بنیاد پر اگر الیکشن جیتا جاسکتا ہے تو مجھے 100 الیکشن ہارنا قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری کی شہادتوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے حکومت اور ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہزارگنجی بم دھماکے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
وفا قی حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے مصطفی کمال نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومتوں سے بھی کمزور ہے نو ماہ کے دوران عوام نے مہنگائی کا صرف ٹریلر دیکھا ہے اصل مہنگائی توآئی ایم ایف کے قرضہ پیکیج کے بعد آئے گی اسد عمر کی ناکامی پوری کابینہ کی ناکامی ہے کیونکہ اس کی پالیسیاں کابینہ کی منظوری سے ترتیب دی جاتی تھیں حکومت باہر سے آنے والے ڈالرز کو چھوڑے پہلے یہاں کے ڈالر کو بچائے۔ اس موقع پر قبائلی رہنما طاہر شاہوانی حاجی امیر حمزہ اچکزئی اور حاجی حلیم شاہوانی نے ساتھیوں سمیت پی ایس پی میں شمولیت کا اعلان کیا۔