|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2019

وڈھ: اہل بلوچستا ن صوبائی حکومت کی تعلیمی ایمرجنسی کے نا م پر بلند بانگ دعوؤں کی گونج میں لیکن زمینی حقائق اس سے قطعی مختلف، معیاری تعلیم کی پرچار، کورس کی درسی کتب کی سیٹوں کی تاحال مکملی،تعلیم کے نام پر بجٹ مختص کرنا،لیکن دوسری طرف سینکڑوں سکولز کی اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے کئی سالوں سے بند ش ایک سوالیہ نشان ہے؟

دوسری جانب کی سرکار کی طرف سے سکولوں کی بندش کی بنیادی وجہ کو حل کرنے کی کوئی ٹھوس سنجیدہ اور عملی کوشش نہیں صرف بے بنیاد اور بے مقصد چھاپوں کے ذریعے صرف اساتذہ کے نام کی تضحیک کے سواعملی طور پر کچھ نہیں۔ اس وقت تحصیل وڈھ سرکل کے سو سے زائد ایسے پرائمری سکولز ہیں کہ جن کے اساتذہ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں یا تو فوت ہوچکے ہیں ان سکولوں میں گزشتہ کئی سالوں سے اساتذہ کی تعیناتی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے صر ف دعوے اور بیانات کا سہارا لیا جارہا ہے۔

پورے تحصیل وڈھ کے تفصیلی جائزہ لینے کی بجائے صرف تحصیل وڈھ کے ایک چھوٹے سے سرکل (سارونہ)کا یہاں جائزہ پیش کرتے ہیں تو باقی بڑے سرکلوں کا جاننے والے خود ہی اندازہ لگاپائینگے کہ وہاں کی صورتحال کیا ہوگی سب تحصیل سارونہ کے سرکل میں ہائی سکول سارونہ کے ساتھ منسلک ایک مڈل سکول اور سولہ (16) پرائمر ی سکول ہیں ان 16پرائمری سکولزمیں سے 10پرائمری سکولز بندہیں جن کی بند ش کی وجہ ٹیچر نہیں بلکہ محکمہ ہے کیوں کہ سکولوں کے ٹیچرز ریٹائرڈ ہوچکے ہیں یا فوت ہوگئے ہیں لیکن سرکارمزید اساتذہ بھرتی نہیں کررہے ہیں۔

صرف آرٹی ایس ایم کی ٹیم کے ذریعے خود ساختہ چھاپہ مار کاروائی کرکے (سکول بند تھا ٹیچر غیر حاضر تھے) جیسے محض ایسی بے بنیاد اور بے مقصد رپورٹنگ پر اتفاق کرتے ہیں جن کاکوئی مقصد ہے اور نہ ہی فائدہ، جو 10سکولز بند ہیں ان سکولوں کے بند ش کی وجہ بھی حقیقت پر مبنی ہیں، لیکن سرکا ران معاملات کا کوئی خاص حل نکالنے کے بجائے معاملات سے آنکھیں بند کررکھے ہیں۔ جن 10سکولز کی بندش کا ذکر ہے ان میں اساتذہ (ریٹائرڈ) ہوچکے ہیں اور زیادہ تراس دنیا سے ابدی ریٹائرڈ چکے ہیں اور ان بند سکولز کی مکمل تفصیلی جائزہ رپورٹ اس طرح ہیں۔

(1)پرائمری سکو ل کی احمد وال سارونہ (ٹیچر ریٹائرڈ)(2)پرائمری سکول کلی خلق مینگل سارونہ کوچہ (ٹیچر ریٹائرڈ ایک ٹرانسفر)(3)پرائمر ی سکول کوچہ (ٹیچر فوت)(4)پرائمری سکول کلی چیئر مین محمد چھاڑ(ٹیچر ریٹائرڈ) (5)پرائمر ی سکول ٹوری (ٹیچر فوت) (6)پرائمر ی سکول اکپٹ (ٹیچرز ریٹائرڈ)(7)پرائمر ی سکول کاکیتی شاہ نورانی (ٹیچر ریٹائرڈ) (8)پرائمر ی سکول کوہن کلی صالح محمد کوہن شاہ نورانی ٹیچر(ریٹائرڈ) (9)پرائمر ی سکول کلی صادق شاہ نورانی (ٹیچر ریٹائرڈ)(10) پرائمر ی سکول کلی بھادین شاہ نورانی (ٹیچر ٹرانسفر)ہوچکے ہیں۔

لیکن سرکار ان بند سکولوں کو کھول کر خالی آسامیوں کوپر کرنے کی بجائے صرف نام اساتذہ کے پیچھے پڑے ہیں اور اکثر یہ پروپگنڈہ کرنے کو سمجھتے ہیں کہ جی ٹیچر نہیں پڑھائی نہیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ سورج کو انگلی سے نہیں چھپایا جاسکتا اور جب تک ان خالی آسامیوں کو پر نہیں کیا جاتا ہے جاتا تب مسئلہ حل نہیں ہو سکتا یہ ایک چھوٹے سے سرکل کا حال ہے باقی ایسے بھی سرکل ہیں جن میں 60سے زائد سکولز ہیں۔

ان میں بھی بہت سارے سکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں، صوبائی حکومت عملی اقدامات کی بجائے صرف زبانی جمع خرچ کرنے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو ایسی حالت میں تعلیمی ایمرجنسی نام پر بجٹ مختص کرنا یا دعوایٰ کرنا تو کوئی سود مند بات نہیں اگر صوبائی حکومت بلوچستان میں تعلیم کے شعبے میں واقعی سنجیدہ ہے تو صرف خالی دعوایٰ کرنے کی بجائے عملی اقدامات شروع کرے اوربلوچستان کے سکولوں کے جو آسامیاں خالی ہیں۔

ان آسامیوں کو فوری طور پر مشتہر کرکے بھرتی کے عمل کو تیزکریں پھر تعلیمی ایمرجنسی کے دعووں پر کوئی یقین کرسکتا ہے لیکن بے کار اور بے عمل دعووں سے کچھ نہیں ہونے والا محض دھوکہ۔