|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2019

خضدار: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی نے کہاہے کہ میں جھالاوان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں مجھے جھالاوان کے عوام نے جو پیار اور عزت دی ہے وہ کبھی نہیں بھلاؤنگا،میرا تعلق جھالاوان سے بھی ہے اور لسبیلہ سے بھی ہے،ہمیں یہاں کے عوام کی محبت اور خلوص کی قدر ہے۔

، ہماری حکومت بلوچستان میں ایک موثر تبدیلی لانے کی جانب پیش رفت کررہی ہے، اور یہ تبدیلی عوام کی فلاح وبہبود، اضلاع تحصیل و علاقوں کی ترقی کے لئے ہوگی، ہم اختیارات کو صوبائی دارالحکومت سے اضلاع کی طرف منتقل کررہے ہیں تاکہ براہ راست عوام حکومتی اقدامات سے مستفید ہوں،ماضی میں ایسا نہیں ہوا ہے ماضی میں حکومتیں ذات اور فرد کے لئے ہوئی ہیں ان سے عام عوام الناس کو بہت کم فائدے ملے ہیں۔

اقتدار کو عوام کی بجائے اپنے مفادات کے لئے استعمال کیئے، نظام کو درست نہیں کیا گیا اس لئے آج صوبے کا یہ حال ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے عوام کو خوشحالی دیں، عوام کو ترقی دیں اور صوبہ صحیح معنوں میں ترقی کی جانب گامزن ہو،ہم نے جو وعدے عوام سے کیئے تھے،شہروں کو ہم ترقی دے رہے ہیں صوبے کے بڑے اضلاع میں میٹرو پولیٹن قائم کیا جائیگا، ہر ڈسٹرکٹ میں اعلیٰ معیار کے ہائر اسکول قائم کررہے ہیں، گوادر سمیت بلوچستان کی تمام زمینوں کو محفوظ بنادیا ہے۔

اب باہر کے کسی بھی فرد کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ بلوچستان کی زمین کو پیسوں کے بدلے میں خرید لے یہ زمین بلوچستان کے عوام کی رہے گی اور ملکیت بھی ان کی ہوگی،صوبے میں ریکروٹمنٹ کی منفرد پالیسی قائم کردیا ہے اب صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کو دارلحکومت نہیں آنا ہوگا یہ کمیٹی ضلع میں بنے گی وہی انٹرویو اور ٹیسٹ ہونگے،ہم کام کررہے ہیں اور مستقبل وقریب میں عوام کو مذید تبدیلی نظر آئے گی۔

کراچی خضدار چمن روڈ کو ڈبل وے بنارہے ہیں اور اس منصوبے پر جلد کام کا آغا کرنے جارہے ہیں، ہم نے صوبے میں کینسر ہسپتال اور کارڈک ہسپتال منصوبوں کا بھی آغاز کردیا ہے۔

ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار میں بلوچستان عوامی پارٹی کے بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلسہ عام سے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر آغا شکیل احمددرانی، صوبائی وزیرداخلہ میر ضیاء لانگو، صوبائی وزیر لائیو اسٹاک میٹھا خان کاکڑ، مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان دھنیش کمار،میر خالد بزنجو، بی اے پی خضدار کے آرگنائزر رئیس جاوید سوز مینگل، میر عبدالقیوم ساسولی، سردار عزیز محمد عمرانی، مولانا عبداللہ سمالانی، بشیراحمد جتک و دیگر نے خطاب کیا۔

اس موقع پرسردار مہراللہ قمبرانی،میر نعمت اللہ خان بزنجو میر اخلاق خدرانی، میر ظفراللہ خان ساسولی، سردار بلند خان غلامانی، اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بذریعہ ہیلی خضدار ائیر پورٹ پہنچے تو بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر رہنماء مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان آغا شکیل احمددرانی،ڈی آئی جی خضدار رینج آغا محمد یوسف، ڈپٹی کمشنر خضدار میجر(ر) محمد الیاس کبزئی، ایس ایس پی خضدار جاوید اقبال غرشین، وڈیرہ محمد صالح جاموٹ ودیگر موجود تھے۔

صوبائی وزراء میر ضیاء لانگو، میٹھا خان کاکڑ، دھنیش کمار، کمشنر قلات ڈویژن حافظ طاہر ودیگر ان کے ہمراہ تھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو شہید سکندر یونیورسٹی خضدار لایا گیا جہاں انہیں زیر تعمیر یونیورسٹی کے بارے میں بریفنگ دی گئی، پی ڈی یونیورسٹی حاجی رحمت اللہ ودیگر بھی موجو دتھے۔

جلسہ عام سے خطا کرتے ہوئے کوارڈنیٹر وزیراعلیٰ بلوچستان آغا شکیل احمددرانی نے اپنے سپاسنامہ تقریر میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے سامنے خضدار کے عوام کے مسائل رکھے، جن میں خضدا رمیں بجلی کے مسئلے کو حل کرنا نال، گریشہ، اورناچ اور زیدی سمیت دیگر علاقوں میں بجلی فراہمی اور گریڈ اسٹیشن قائم کرنے کی بات کی۔

خضدار کے رقبے اور آبادی کے حوالے سے انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو بتایا کہ وہ خضدار کو تین اضلاع میں تقسیم کرکے عوام کو مذید فوائد پہنچانے کے لئے اقدامات اٹھائے، خضدار کے بعض علاقوں گریشہ اورناچ میں سیکورٹی کی صورتحال متاثر کن نہیں ہے وہاں سیکورٹی بڑھائی جائے،اور دیگر خضدار کے مسائل کے بارے میں وزیراعلیٰ بلوچستان کو آگاہ کیا اور خضدار آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ ہم نے آٹھ ماہ کی مختصر مدت میں کابینہ کے کئی اجلاس بلائے ہیں اور اس میں عوام ہی کے بنیادی مسائل اور صوبے کی خوشحالی رکھی ہے،گزشتہ آٹھ نو ماہ میں ہم نے جو کام کیا ہے وہ ماضی کی حکومتوں کی بنسبت کافی زیاد ہے۔

ہم صوبے کے عوام کی مشکلات کو کم کررہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ صوبے کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے بہت دور جانا نہ پڑے بلکہ ان کے مسائل اور ان کی ضرورتیں ان کی اپنی ڈسٹرکٹ میں حل ہوں اور اس کے لئے ہم پالیسیاں مرتب کررہے ہیں پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک چھوٹی آسامی کے لئے بھی دور دراز اضلاع کے عوام کو کوئٹہ آنا پڑتا تھا اب ایسا نہیں ہے ہم چاہتے ہیں کہ جس ضلع میں آسامی خالی ہے اس کا ٹیسٹ و انٹر ویو اسی ضلع میں ہو اور وہی نوجوان فائدہ اٹھائیں۔

ہم نے یہ فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد بھی کررہے ہیں، سی وی جمع کرنا ہو، انٹرویو دینا ہو سب ضلع میں ہونگے،انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت ان تمام منصوبوں اور بلڈنگز کو پائیہ تکمیل تک پہنچائے گی کہ جو ماضی کی حکومتوں نے شروع کررکھا ہو، سولہ سال بعد پولی ٹیکنیک کی بلڈنگ میرے ضلع میں مکمل ہوا ہے، ہم چاہیں گے جو مفادعامہ کے منصوبے ہوں اس کو ہم پورا کریں، شہید سکندر یونیورسٹی مکمل ہوگا اور اس ادارے سے پورے صوبے کے عوام پڑھیں گے۔

ماضی میں ڈویژنل اور اضلاع کو پیسے دیئے گئے ان سے بھی کچھ چوک و چوراہے اور فوارے بنائے گئے تاہم ان سے عام عوام کوفائدہ نہیں پہنچایا گیا، ہم ایسا نہیں کریں گے ہم جو حکمت عملی اور پالیسی بنارہے ہیں اس میں اضلاع و تحصیلوں کے تمام عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے گا، ہمار ی حکومت نے پالیسی بنائی ہے کہ ہر ضلع میں دو اعلیٰ معیار کے ہائر اسکول قائم کیئے جائیں۔

ہم صوبے میں ہیلتھ کی سہولیات بھی فراہم کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہیلتھ کے نظام کو ہر ضلع میں اس حد تک ترقی دینا چاہ رہے ہیں کہ کسی بھی مریض کو اپنے ہی ضلع میں علاج کی سہولت میسر آجائے انہیں کوئٹہ یا کراچی جانا نہ پڑے اور صوبے میں غیر معیاری ادویات کے خاتمے پر کام کررہے ہیں۔

صوبے میں دو نمبر تین نمبر ادویات کے خاتمے کے لئے خصوصی ہدایات جاری کردیئے ہیں، خضدار میں گیس کی سہولت کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں گے، اور جن علاقوں میں بجلی کی سہولت میسر نہیں یا گریڈ اسٹیشن قائم کرنا ہو وہاں ہم وفاقی حکومت کے ذریعے عوام کو بجلی سہولت دیں گے اگر وفاقی حکومت سے ہمیں پیسے نہیں ملے تو صوبائی حکومت اپنے ہی فنڈز سے عوام کو بجلی کی سہولت دے گی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ ہم نے اپنی پارٹی کے کچھ اصول اپنا یا ہے، ہم نے الیکشن کے دوران بلوچستان کے عوام سے جو باتیں کی تھی اس پر ہم کاربند ہیں، اس پارٹی کا منشور وہی ہے اور ہم اس کی پیروی کررہے ہیں، ہماری پارٹی کا جوبھی منشور ہے، جو بھی عزم ہے اسے عوام کی ترقی سے منسلک کرنا ہے ہمیں، ہم نے بلارنگ و نسل و قوم کی خدمت کرنا ہے، آج کوئی، نعش کی سیاست کرتا ہے آج کوئی رنگ و نسل کی سیاست کرتا ہے علاقہ کی سیاست کرتا ہے۔

کوئی مذہب کی سیاست کرتا ہے، ہماری سیاست ایسی نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ نے ہمیں قوم و قبیلہ اس لیئے عطاء فرمایا ہے کہ ہماری شناخت ہو، تاہم سیاست ان تمام چیزوں سے بالا تر ہوتا۔

دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے بلوچستان کے عوام ترقیاتی اسکیمات کے حقیقی ثمرات سے محروم ہوئے اور وسائل کا ضیاع ہوا، آج لسبیلہ میں تعلیمی ترقی کے دواہم منصوبوں کی تکمیل ہماری حکومت کی آٹھ ماہ کی کارکردگی کی گواہی دے رہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے بی آر سی کالج اور پولی ٹیکنیک کالج لسبیلہ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیر اعلی نے کہا کہ ان منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں لسبیلہ کے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر جہاں خوشی کا احساس ہورہا ہے وہیں افسوس بھی ہوتاہے 16سال کے بعد منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے ان اداروں میں اشرافیہ کے بچے نہیں بلکہ عام آدمی کے بچے تعلیم حاصل کرینگے۔

اسی طرح بلوچستان کے ہرضلع کا ہم نے دورہ کیا اور سینکڑوں اسکیمات نامکمل پائی گئیں ہماری حکومت نے چیلنج سمجھ کر اس طرح کی 500اسکیمات کو رواں مالی سال جون تک پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے، ہمیں دوسروں کی اسکیمات کو فیتہ لگا کر افتتاح کرنے کا شوق نہیں۔

وزیر اعلی نے کہا کہ ماضی میں منصوبہ بندی کے بغیر چند لوگوں کے مفاد کی خاطر اسکیمات بنائی گئیں جو پی ایس ڈی پی کی کتاب تک محدود رہیں،حکومتی پیسوں کا درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے جو اسکیم چار سال میں مکمل ہونی تھی وہ دس سال بعد بھی نامکمل ہے جس پراجیکٹ کی لاگت چار کروڑ تھی وہ بڑھ کر دس کروڑ تک پہنچ گئی۔

اسی طرح سرکاری وسائل کا ضیاع اور بلوچستان کے عوام ان ترقیاتی اسکیمات کے ثمرات سے محروم ہوئے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ عام انتخابات میں بلوچستان عوامی پارٹی کو مینڈیٹ ملا ہم نے اسے اللہ کی طرف سے اعزاز اور سعادت سمجھ اس دھرتی کے لوگوں کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا، کابینہ اراکین کی مشاورت سے پی ایس ڈی پی کو درست کرنے کی جانب سے اقدامات کا آغاز کیا۔

یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کا ہے کہ پی ایس ڈی پی میں وہ اسکیم ہوگی جو مفاد عامہ کی ہوگی عوام نہیں چاہتے کہ انکے ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز خرد برد ہوں،اس سلسلے میں ہماری حکومت نے پی ایس ڈی پی کو درست سمت دینے کی جو کوشش کی اس سے چند لوگوں کے مفاد کو زک پہنچی چونکہ وہ اجتماعی بنیادوں پر ترقیاتی منصوبوں کے بجائے انفرادی نوعیت کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتے تھے اگر انھیں مفاد عامہ میں کئے گئے۔

فیصلوں سے اختلاف رائے ہے تو کھل کر سامنے آئیں اس بات کا فیصلہ بلوچستان کے عوام نے کرنا ہے کہ انکے وسائل انکی بہتری اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خرچ ہونے چاہیے۔

وزیر اعلی نے کہا کہ کچھ لوگ وفاق پر ذیادتیوں کا ذکر کرتے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ گزشتہ ادوار بلوچستان اسمبلی کے منتخب اراکین کیا کے پی کے سے آئے تھے، کیا وہ اس دھرتی سے نہیں تھے، ہمارے صوبوں کے تعلیمی اداروں کو تباہ ہمارے اپنے لوگوں نے کیا اسکا ااحتساب آپ لوگ کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک غریب صوبہ ہے ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم ترقیاتی اسکیمات اور وسائل کے ضیاع کے متحمل ہوں،وزیر اعلی نے کہا کہ پیسہ بلوچستان کے عوام کی امانت ہے اس میں وہ خیانت ہرگز نہیں ہونے دینگے۔

لسبیلہ کے دونوں اہم تعلیمی اداروں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلی نے کہا کہ اگر یہ منصوبے وقت پر پایہ تکمیل کو پہنچتے تو آج بلوچستان کے ایک ہزار نوجوان ہنر مند اور تعلیم یافتہ ہوکر اپنے لئے بہتر روزگار کے مواقع سے مستفید ہوتے، لیکن ہمیں افسوس اس بات کا ہوتاہے کہ ماضی میں پی ایس ڈی پی کےِ چند لوگوں کی پالیسی رہی جس کی وجہ سے لسبیلہ میں سڑکوں کا کام، بیلہ میں بس ٹرمینل قلات میں پچاس بیڈ کا ہسپتال اور اس طرح کی کئی اسکیمات جو نامکمل ہیں جنکا خمیازہ ہماری جنریشن کو بھگتنا پڑرہاہے۔

ہماری حکومت سے قبل ہرڈسٹرکٹ میں ہسپتال موجود تھے لیکن ان میں سرجری نہیں ہورہی تھیں ہم نے مفاد عامہ ایسی پالیسیاں بنائی ہیں کہ اب لوگوں کو علاج کے لئے دوسرے شہروں کا رخ کرنے کی ضرورت نہیں رہیگی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نے ایجوکیشن کا پروگرام بنایا کہ 25ہزار نئی آسامیوں پر بھرتیاں عنقریب ہونگی ہر علاقے کے عوام کی ضروریات کے مطابق ہائیر سکینڈری اسکول قائم کئے جائیں گے،ہم ہرگوٹھ اور ہردیہات میں اسکول دیں گے تاکہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں،ریاست کا قانون ہے کہ تعلیم ہرشہری کا بنیادی حق ہے۔

لیکن ہمارے اداروں کی پالیسیاں کچھ اس طرح کی رہیں کہ کسی علاقے کی آبادی کی بنیاد پر وہاں مڈل اور ہائی سکول قائم کرنے کی روایت رہی لیکن ہمارے ہاں ایسے بھی علاقے اور یونین کونسل ہیں جن کا رقبہ 140کلومیٹر پر مشتمل ہے لیکن وہاں کی آبادی انتہائی کم ہے اس طرح آئندہ چالیس تک ان علاقوں کے بچے پرائمری کے بعد مڈل اور ہائی کی تعلیم سے محروم رہیں گے۔

ہم نے کہا کہ اس طرح کا طریقہ کار بنائیں جو علاقے کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہو،بہت سارے اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان اور کئی سرکاری اسکول چھت سے محروم ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر شلٹر لیس اسکول کو بلڈنگ دینی ہے، انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کا وژن ہے کہ ہر ادارے پر اپنے پاؤں پر کھڑاکیا جائے ادارے زبوں حالی کا شکا رہیں۔

بلوچستان کے 70فیصد لوگوں کاذریعہ معاش مالداری مائنزاور زراعت سے وابستہ ہے ان سرکاری اداروں کو ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو بلوچستان کے لوگوں کے مستقبل کو خوشحال اور انہیں بہتر گائیڈ لائن فراہم کرے۔

وزیر اعلی نے پی ایس ڈی پی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ نے اتحادی جماعتوں مشاورت سے فیصلہ کیا ہے کہ ہرڈسٹرکٹ کی سطح پر دس کروڑ کی ترقیاتی اسکیمات پر عملدرآمد کیا جائیگا تاکہ لوگوں کے مسائل انکے لوکل نمائندوں کی مشاورت سے گراس روٹ لیول پر حل ہوں،اللہ تعالی نے پورے صوبے کی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے ہمیں اللہ کے سامنے بھی سرخروہونا ہے۔

یہ صوبہ ہم سب کا ہے اس صوبے کا مستقبل اس وقت روشن ہوگا جب ہم اپنی ذمہ داریاں اور عوامی نمائندگی کا حق حقیقی معنوں میں اداکرینگے ہر شہری کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور معیاری تعلیمی اداروں کا قیام ہماری ترجیھات میں سرفہرست ہوگا۔

انھوں نے کہا اگر صوبائی حکومت کمزور ہوئی تو اس کا نقصان اس صوبے کے عوام کا ہوگا اور معاملات پھر ماضی کی غلط رجحانات کی نذر ہونگے ہم نے وقت پر چیزوں کا تعین بہتر اور دوررس نتائج پر مبنی فیصلے کرنے ہیں تاکہ آئندہ آنیوالی حکومتیں ہماری غلط مثال نہ دیں، وزیر اعلی بلوچستان نے لسبیلہ کی تحصیل لاکھڑا کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دینے کا اعلان بھی کیا،تقریب سے صوبائی وزیر میر ضیاء لانگو، صوبائی مشیر میر مٹھا خان اور پارلیمانی سیکریٹری دنیش کمار نے بھی خطاب کیا۔

قبل ازیں ڈسٹرکٹ کونسل کے سابق چیئرمین قادر بخش جاموٹ نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے لسبیلہ کے عوام کو درپیش اہم نوعیت کے مسائل ٹرانسمیشن لائن کی درستگی، اراضیات کی ری سٹلمنٹ اور دیگر مسائل کے ساتھ بلوچستان میں امن وترقی کیلئے جام خاندان کی خدمات پر روشنی ڈالی۔

قبل ازیں وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان اپنے کابینہ ممبران، صوبائی وزیر داخلہ ضیاء لانگو، صوبائی مشیر لائیواسٹاک مٹھا خان کاکڑ اور پارلیمانی سیکریٹری دنیش کمار کے ہمراہ ہیلی کاپٹر پر لسبیلہ پہنچے تو لسبیلہ کے دور دراز علاقوں سے بلوچستان عوامی پارٹی کے کارکنان بڑی تعداد میں اپنے قائد کی تقریر سننے کیلئے اوتھل آئے۔