کوئٹہ کی آبادی بڑھ رہی ہے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے محکمہ بہبود آبادی بے بس نظر آتی ہے۔ ادارہ بے بس کیوں ہے اور ناکامی کے وجوہات کیا ہیں خدا جانے۔ کوئٹہ کی زمینیں رہائشی اسکیموں میں بدل رہی ہیں۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق کوئٹہ کی آبادی 759941 تھی۔ 2017 میں یہ آبادی 2275699ہوگئی ہے۔ اب اس آبادی کو کنٹرول کرنا یا سنبھالنا حکومت کے بس سے باہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
حکومت نے ایک کام ضرور کیا ہے کہ رہائشی اسکیموں بنام ”نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم“ کا اعلان کرکے بے گھر لوگوں کے لیے امید کی فضا قائم کی ہے مگر شفافیت کے معاملے پر اب بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔وزیراعظم نے کوئٹہ آمد پر اسکیم کا افتتاح کیا۔ فارم بھرے جارہے ہیں سرکاری ملازمین کے لیے رجسٹریشن فیس5000 روپے جبکہ غیرسرکاری ملازمین کے لیے رجسٹریشن فیس 10000روپے رکھے گئے ہیں یہ فیس ناقابل واپسی ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ کی زمین کو چت کرنے کے لیے ڈی ایچ اے نے بھی کمر کس لی ہے اورمخصوص انداز میں میدان میں وارد ہوا ہے۔ڈی ایچ اے ایک ایسا اژدھا ہے جو سب کچھ کھا جائے گا۔ اب خدا جانے عام آدمی کے حصے میں کیا آئے، بہرحال بڑے بڑے سرمایہ دار اپنا پیسہ لگائیں گے۔ ڈی ایچ اے کی اسی اتھل پتھل میں بحریہ ٹاؤن کاسی بھی زیر اثر آچکا ہے۔
بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ مالکان ان اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اب خدا جانے یہ احتجاج کتنا مؤثر ثابت ہو گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ڈی ایچ اے اور حکومت مل کر کوئٹہ کا جو نقشہ ڈیزائن کر چکے ہیں وہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ کرے گاکوئٹہ میں پانی کے مسئلے کو لے کر پورا کوئٹہ شہر پریشان ہے،اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جتنے بھی ادارے قائم کیے جا چکے ہیں سب پانی کی فراہمی میں سب ناکام ہیں۔
پورا کوئٹہ پانی کے حصول کے لیے ٹینکرز مالکان کے رحم و کرم پر ہے۔ جب تک زیر زمین پانی ہے تو یہ سلسلہ چلتا رہے گا سوچتا ہوں جس روز خدانخواستہ زیر زمین پانی ختم ہوگیا توپورا کوئٹہ شہر ہی نقل مکانی نہ کر جائے۔ کوئٹہ کی سطح پر اسٹیٹ ایجنسیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے زمین اور مکانوں کی خرید و فروخت میں سب کے سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہے ہیں۔
جی میں آئے تو پورا کوئٹہ ہی بیچ ڈالیں۔ خرید و فروخت کے بازار میں کوئٹہ کی پہاڑیاں بھی محفوظ نہ رہ پائے۔ یہ اسٹیٹ ایجنسیاں رجسٹرڈ ہیں یا نہیں، حکومت کا ان پر کتنا کنٹرول ہے، ان کا چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے یا نہیں۔ خدا جانے۔ خرید و فروخت کا بازار دیکھتے ہوئے انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اتنی زمینیں خرید کر انسان انہیں لے کر کہاں جائے گا۔
کوئٹہ میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اگر تھوڑی بہت منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تو اس میں ”چھڑے“ لوگوں کا ذکر ہی نہیں۔ کوئٹہ کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں چھڑے لوگوں کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا مگر منصوبہ بندی کے اس سارے عمل میں چھڑے لوگ کہیں بھی نظر نہیں آتے۔جس سے چھڑے لوگوں کو رہائش کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔
اگر آپ چھڑے ہیں اور کوئٹہ میں رہائش کا مسئلہ ہے تو دعا یہ کریں کہ کوئٹہ میں جان پہچان کا کوئی آدمی مل جائے جو جگہ کے حصول میں آپ کی مدد کرے ورنہ تو اسٹیٹ ایجنٹ سے واسطہ پڑتے ہی پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے کہ فیملی ہے یا چھڑے ہیں۔ اگر آپ کا جواب چھڑا ہے تو اسٹیٹ ایجنٹ کا منہ بسورا چہرہ ہی پائیں گے۔اس کا چہرہ دیکھتے ہی آپ اپنی آمد پہ شرمندہ جائیں گے۔ میں تو سب چھڑے لوگوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ کوئٹہ کا رخ کرنے سے پہلے شادی ضرور کرلیں ورنہ گھر کے حصول کے لیے آپ کو اتنی ہی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا جتنی شادی شدہ افراد کو بیوی کے سوالات سے کرنا پڑتا ہے۔
بیوی کو جواب دے کر پھر بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر اسٹیٹ ایجنٹ کو مطمئن کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں اور کوئٹہ میں بغیر فیملی کے رہ رہے ہیں تو بھی چھڑے ہی کہلائیں گے۔ اب یہ لفظ چھڑا غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے اتنا زہرِ قاتل بن چکا ہے کہ چھڑا لفظ سنتے ہی وہ قے کرنے پراتر آتے ہیں۔میرے ایک چھڑے دوست کو اِن دنوں رہائشی مکان کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے انہوں نے سوچ رکھا ہے کیوں نہ خانہ بدوشانہ زندگی گزار کر حکومتِ وقت کے خلاف احتجاج کیا جائے۔
بھلا حکومت پر احتجاج کا کیا اثر ہو گا۔ انہوں نے ایک سپاسنامہ تیار کر رکھا ہے جس میں چھڑے لوگوں کی خدمات اور ان کی کنٹری بیوشن کو سنہرے حروف میں یاد کیا گیاہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کرنے میں چھڑے لوگوں کی خدمات کے عوض انہیں ایوارڈ سے نوازا جائے۔
اگر حکومتِ وقت ایسا کرنے سے قاصر رہا تو کوئٹہ کے سب چھڑے مل کر دو دو شادیاں کرکے کوئٹہ کی آبادی کو ایک ہی سال کے اندر ایک کروڑ تک پہنچا دیں گے۔ اب چھڑا کون اور خانہ بدوش کون اک نئی جنگ چھڑ جائے گی بہتر یہی ہے کہ حکومتِ وقت چھڑے لوگوں کے لیے رہائشی اسکیموں کا اعلان کرے اور چھڑے لوگوں کو مستقل طور پر ان سوالات سے چھٹکارا دلانے میں ان کی مدد کرے جو بسا اوقات انہیں اسٹیٹ ایجنٹوں سے سننے کو ملتے ہیں۔
دوسری جانب محکمہ بہبودِ آبادی چھڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک سفارش نامہ حکومتِ بلوچستان کو ارسال کرے جس میں کوئٹہ کی آبادی کو کنٹرول کرنے میں چھڑے لوگوں کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا جائے بلکہ مفت جگہ فراہم کرنے اور ملازمتیں دینے کی سفارش کرے اس سے نہ صرف محکمہ بہبود آبادی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر ے گا بلکہ چھڑے لوگوں میں احساسِ تحفظ پیدا ہوگا اور وہ محکمہ بہبود آبادی کے نظام کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا ئیں گے۔