|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2019

پاکستان میں آزادی صحافت کی صورت حال کا اندازہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل سے حامد میر کے اس سوال سے لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا کو پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کو انٹرویو کرنے اور ان کے خلاف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے الزامات کا جواب حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے حامد میر کو یہ اجازت نہیں دی۔

یہ اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کو اپنے خلاف آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

میرے زیادہ تر صحافی دوست بھی جو مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ وابستہ ہیں اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کو حاصل آزادی روز بروز سکڑتی جا رہی ہے۔ایک نیوز چینل کے مینجنگ ڈائریکٹر اظہر عباس نے حال ہی میں یہ بتانے کے لیے ایک نظم سنائی کہ صحافیوں کو سچ لکھنے یا بولنے کی اجازت نہیں ہے۔نیوز کے سربراہ، جنھیں روزانہ اس بارے میں پریس ایڈوائس کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیا کہا جا سکتا ہے اور کیا کہنے پر پابندی ہے، سے زیادہ اور کس کو معلوم ہو گا۔

میرے ایک اور دوست اویس توحید کو جو غیر ملکی اور مقامی میڈیا کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں،قصہ گوئی پر ملکہ حاصل ہے۔انھوں نے اس بارے میں ایک خوبصورت کہانی پوسٹ کی کہ آزادی صحافت کس طرح محدود کی جاتی ہے۔انھوں نے کہانی کے آخر میں لکھا کہ بچپن کی طرح وہ اب بھی ڈر جاتے ہیں کہ اندھیرا بڑھ رہا ہے۔

انتہائی طاقت ور اخبار ڈان کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے سرل المیڈا کے کالم کو روکنا پڑا۔دھیمے مزاج کے اور نفیس صحافی شاہ زیب جیلانی کو خشوقجی کے قتل پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنانے پر ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

آئین کے آرٹیکل19 میں آزادی اظہار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو آزادی تقریر و اظہار کا حق حاصل ہو گا اور آزادی صحافت ہو گی،بشرطیکہ اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصے کی سلامتی یا دفاع،غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات،امن عامہ، شائستگی یا اخلاقیات کے مفاد میں یا توہین عدالت (اس کے ارتکاب)یا کسی جرم پر اکسانے کے حوالے سے قانون کے تحت کوئی معقول پابندی عائد نہ ہو۔

آئین کی یہ پابندی بھی قومی سلامتی یا مذہبی معاملات پر مکالمے کو محدود کرتی ہے۔حال ہی میں CPEC کو بھی مقدس گائے بنا دیا گیا جس پر کوئی درست سوال بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔

3 مئی کو پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کے طلبہ کے ساتھ حامد میر کے پروگرام میں بیشتر طلبہ کا خیال تھا کہ میڈیا آزاد نہیں ہے اور اسے اب بھی پابندیوں کا سامنا ہے۔جب ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ نے کہا کہ میڈیا کو قومی مفاد ذہن میں رکھ کر ہی رپورٹ کرنا یا لکھنا چاہیئے تو حامد میر نے سوال کیا کہ قومی مفاد کی وضاحت کون کرے گا۔

انھوں نے کارگل جنگ کا حوالہ دیا جس میں میڈیا کو یہ رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی کہ اس کے فوجی مارے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت جس کہانی پر زور دینا چاہتی تھی وہ یہ تھی کہ کارگل میں فوج نہیں بلکہ کشمیری حریت پسند لڑ رہے ہیں۔اب بیس سال گزرجانے کے بعد ہم سب کو پتہ چل چکا ہے کہ کارگل کی لڑائی مشرف اور ان کے چند ساتھیوں کی طرف سے کی جانے والی مہم جوئی تھی جو غلط ثابت ہوئی اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو جنگ روکنے کی خاطر امریکی صدر بل کلنٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے بھاگنا پڑا۔

یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا جہاں یہ سوچ جسے قومی مفاد کہا جاتا ہے،درحقیقت پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ پاکستان کے عوام پر1965 کی جنگ صرف اس لیے تھوپی گئی کہ ایوب خان نے باغیوں کو کشمیر بھیج دیا۔یہی کچھ اس وقت ہوا جب ہم مشرقی پاکستان میں مقبول سیاسی جماعت کے خلاف،جس نے1970 کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی فوجی آپریشن کی وجہ سے آدھا ملک کھو بیٹھے۔یہ سب کچھ قومی مفاد کے نام پر کیا گیا اور جن لوگوں نے کہا کہ یہ قومی مفاد میں نہیں ہے،انھیں غدار قرار دیا گیا۔

صحا فیوں کو اس قومی مفاد پر اصرار سے ابہام کا شکار نہیں ہونا چاہیئے،جس کی تشریح حکمران طبقات اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے۔ انھیں رپورٹنگ کرتے ہوئے یا لکھتے وقت لسانی، مذہبی اور قومی تعصبات سے بالا تر رہنا چاہیئے۔صحافی کو فقط یہ سوچ ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ریاست کی کوئی پالیسی عوام کے حق میں ہے یا عوام کے خلاف۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز(RSF) کی طرف سے تیار کی جانے والی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان پچھلے سال کی 139 ویں رینکنگ سے مزید نیچے ہو کر 142 ویں رینکنگ پر آ گیا۔اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران میڈیا کی آزادی مزید سکڑ گئی ہے،جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔

ہمیشہ کی طرح یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ: کیا آزادی صحافت کی کوئی حد ہونی چاہیئے؟ کیا ایک آزاد عدلیہ کے بغیرآزادی صحافت ممکن ہے؟ میڈیا کے لیے مخصوص قوانین کے ذریعے آزادی صحافت کو محدود کرنے کا معاملہ اکثر ان لوگوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے جو یا تو مراعات یافتہ حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں یا ہنوز جمہوری اقدار کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔خود صحافیوں میں بھی اس بات کی بہت کم فہم ہے کہ آزادی صحافت،آزادی اظہار کا حصہ ہے جو صرف جمہوری معاشرے میں ہی ممکن ہے۔میں نے لفظ معاشرے پر اس لیے زور دیا ہے کہ آزادی اظہار کا احترام صرف ایک سیاسی معاملہ ہی نہیں ہے؛ یہ سماجی اور معاشی معاملہ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

3 مئی کو ساری دنیا میں عالمی یوم آزادی صحافت منایا گیا صحافیوں، سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں کی سالوں کی جدو جہدآزاد میڈیا کو قبول کرنے کے لیے پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کوبہت کم مائل کر سکی ہے۔نجی ملکیت میں کام کرنے والے چینلز اسٹیبلشمنٹ اور اسلام پسند نان اسٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے زیادہ دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔اب نجی شعبہ کے چینلز مالکان اور اہم اینکرز کو رشوت اور دباؤ سے کنٹرول کرنے کے نئے طریقے وضع کیے گئے ہیں۔ان پرائیویٹ چینلز کے مالکان کے اسٹیکس بہت زیادہ ہیں اس لیے انھیں دبانا آسان ہوتا ہے۔