|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2019

صوبائی حکومت نے محکمہ تعلیم کی گریڈ 17کی 2120 اور گریڈ 5تا 9کی 9423خالی آسامیوں کا اعلان کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ بلوچستان حکومت نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی میں نیک نیتی سے کام لے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بشمول کابینہ کے دیگر اراکین یہ بات بارہا دہرا چکے ہیں کہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے محکمہِ تعلیم میں بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ بہت اچھی بات ہے روزگار کی فراہمی کے حوالے سے حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ مگر یہاں ایک بات جو عموماً تمام اقدامات کو ہوا میں اڑانے کا کام کرتی ہے وہ یہی ہے کہ محکمہ تعلیم حصولِ علم کے بجائے روزگار کا ذریعہ کیوں؟

یقینا آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہوا ہوگا کہ حکومت روزگار فراہم کرے یا اساتذہ بھرتی کرے معنی تو ایک ہی ہے۔اتفاق ہے۔ مگر اصل کام سوچ بدلنے کا ہے جو ہم نہیں کر پا رہے ہیں۔ اب سوچ بدلنے کے لیے اس پیغام کو بدلنا ہوگا جو حکومت حالیہ دنوں دے چکی ہے۔ بجائے یہ کہنے کی کہ ہم بیروزگاری کے خاتمے کے لیے اساتذہ بھرتیاں کر رہے ہیں بلکہ یہ کہتے کہ شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے ماہراساتذہ کی تعیناتیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں تو بات بنتی۔ سوچ بدلے گی تو حالات بدلیں گے جب حالات بدلیں گے تو نقشہ مختلف ہوگا۔

ہمارے ہاں یہ رواج پا گیا ہے کہ جسے روزگار دینی ہو اسے شعبہِ تعلیم میں کھپاؤ تاکہ حصولِ معاش تک اس کی رسائی آسان ہو۔اور وہ عمر بھر کے لیے تعلیم کی گھنٹی گلے میں باندھ کر ماہانہ تنخواہ حاصل کرتا رہے اور نظام کی تباہ حالی میں اپنا حصہ ڈالتا رہے۔اس عمل نے تعلیمی نظام کو اس قدر متاثر کیا کہ ہم ہاتھ پاؤں مارتے رہے نظام ٹیڑھا ہی ٹیڑھا رہا۔ اگر کسی تعلیم یافتہ شخص سے پوچھیں کہ آپ کونسا شعبہ جوائن کر رہے ہیں وہ مختلف اداروں کا نام تو لے گا مگر محکمہِ تعلیم کبھی بھی اس کے زبان پر نہیں آئے گا استاد بننا وہ اپنے لیے تضحیک ہی سمجھتے ہیں۔ اگر کہیں مجبوری حائل ہوجائے تو ٹیچنگ جاب تو قبول کرے گا مگر ڈیوٹی دینا مناسب نہیں سمجھے گا۔

پھر ہم چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ یہ ہوا وہ ہوا۔ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے۔ لیکن حالات ہمارے قابو میں نہیں آتے۔ غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کاروائی ہوگی۔ غیر حاضر اساتذہ کو فارغ کیا جائے گا۔ میرے خیال میں پہلے اس سوچ کو بدلنا ہوگا جو ہمارے اندر پرورش پا رہی ہے کہ ہم بیروزگاری کا خاتمہ ٹیچرز کی بھرتیوں سے کرنا چاہ رہے ہیں اب آپ نے محکمہ تعلیم کو چلانے کے لیے اساتذہ نہیں تنخواہ دار ملازم ہی رکھنا تھا تو بھلا ایک تنخواہ دار ملازم سے اور کیا نتیجہ مانگیں گے سوائے اس کے کہ وہ یا تو گھر بیٹھ کر کمیشن کے ذریعے آفیسران کا جیب بھرتا رہے یا پھر یہ کہ فقط اسکول کی چاردیواری کو اپنا شکل دکھاتا پھرے۔

وفاقی حکومت نے سابقہ ادوار میں آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت بھرتیوں کا جو سلسلہ شروع کیا 5000ملازمین محکمہ ایجوکیشن میں کھپا دیئے گئے اس وقت بھی وفاق کا نعرہ یہی تھا بلوچستان کی احساسِ محرومی کے خاتمے کے لیے وہاں روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ”بہتر تعلیم بہتر مستقبل“ اب اگر آپ کا منشور ہی یہی ہے کہ محکمہ تعلیم بن جائے گی روزگار کا میدان، تو آپ کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ وہاں یہ سوچ پیدا کرنے کی امید نہ کریں کہ آپ نئی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہوں گے بلکہ تضاد اور غیریقینی کی وہ فضا قائم ہوگی کہ استاد اپنے آپ کو تنخواہ دار سمجھ کر اس کی سوچ فقط تنخواہ کے حصول تک محدود رہے گی۔

میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ روزگار ضروری نہیں روزگار ہر ایک کی ضرورت ہے۔ انسان مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کماتا ہے پھر خرچ کرتا ہے۔ لیکن صحت اور تعلیم دو ایسے شعبے ہیں جن کو جوائن کرتے وقت آپ کو اس بات کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے کہ اول اگر آپ فقط روزگار کی نیت سے ادارہ جوائن کر رہے ہیں تو خدارا نہ کیجیے۔

اگر آپ یہ سوچ کرشعبہ تعلیم جوائن کر رہے ہیں کہ آپ نے موجودہ نسل کی بہتر پرورش کرنی ہے اور اسے وہ راستہ فراہم کرنا ہے جو ہماری پچھلی نسل کو دستیاب نہیں تھی تو آپ اس کے حقیقی حقدار ہیں۔ تبدیلی کا راستہ تعلیم ہی ہے تو نہ صرف آپ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں گے بلکہ آپ کا کنٹری بیوشن ایک بہت بڑی تبدیلی کا سبب بنے گی۔ بشرط یہ کہ آپ میں وِل ہو۔

ہمارے ہاں اگر تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جائے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ اساتذہ اور طلبا کے درمیان ایک وسیع خلیج قائم ہے۔ آپ کلاس روم کا جائزہ لیں تو آپ کو وہاں بیزاری کا منظر دیکھنے کو ملے گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ٹیچر پڑھا رہا ہے وہ طلبا کے سر کے اوپر سے گزر رہا ہے کہیں استاد ناراض نہ ہو شاگرد پوچھنے کی جسارت ہی نہیں کرتا۔ ایک بوریت بھرے ماحول میں نہ ہی استاد سکھا رہا ہوتا ہے اور نہ ہی طالبعلم سیکھ رہا ہوتا ہے۔ بچے کو بس زبردستی رٹا لگایا جا رہا ہے۔ اب اگر کسی کا کھانے کو من نہیں کر رہا آپ کھانا اس کے منہ میں زبردستی ٹھونستے چلے جائیں تو وہاں کیا ہوگا یہی ہوگا نا کہ وہ خوراک کو ہضم ہی نہیں کرپائے گا اور نتیجہ قے کی صورت میں سامنے آئے گا۔

ہمارے ہاں تو المیہ یہی ہے کہ یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے انہیں خبر ہی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ کیا رہے ہیں اور استاد کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پڑھا کیا رہے ہیں۔ اب ایسا کوئی پیرامیٹر موجود نہیں جس سے ان خامیوں کو نکالا جا سکے اور نہ ہی نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلکہ پچھلی غلطیوں کو دہراکر وہی نعرہ لگاتے ہیں جو ماضی میں لگا چکے ہیں۔”تعلیمی میدان بطور روزگار کا حصول“ کا نعرہ۔ تو آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ اساتذہ پیدا نہیں کر رہے بلکہ ملازم پیدا کر رہے ہیں۔ تبدیلی چاہتے ہیں تو اس روش کو تبدیل کریں۔ تب آپ تبدیلی کے ثمرات چکھ پائیں گے۔