|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2019

تربت :  میرانی ڈیم متاثرین کے معاوضہ جات کی عدم ادائیگی کا معاملہ لینے والی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس گزشتہ روز چیئرمین کمیٹی سینیٹر شمیم آفریدی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماؤں بلوچستان کے سابق ایڈوکیٹ جنرل ناظم الدین ایڈوکیٹ، سینیٹر محمد اکرم دشتی، سینیٹر کبیر محمد شہی نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ دیگر اراکین کمیٹی کے علاوہ سیکرٹری فنانس بلوچستان، نمائندہ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ شریک رہے، اجلاس میں بلوچستان کے سابق ایڈوکیٹ جنرل ناظم الدین ایڈوکیٹ نے کمیٹی کو اس معاملہ پر تفصیلی بریفنگ دی۔

کمیٹی نے حکومت بلوچستان کو ہدایت جاری کیے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مئی 2015ء میں میرانی ڈیم متاثرین کے معاوضہ جات کی مد میں جو رقوم حکومت بلوچستان کو جاری کیے گئے تھے، بلوچستان حکومت فوری طور پر مذکورہ رقم ڈپٹی کمشنر ضلع کیچ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرے جبکہ بلوچستان حکومت کو پابند کیا گیا کہ مالی سال 2019-2020ء کے مجوزہ بجٹ میں صوبائی حکومت مذکورہ معاوضہ جات میں اپنے حصّے کا رقم جو ایک ارب 75 کروڑ بنتے ہیں کو صوبائی پی ایس ڈی پی کا حصہ بناتے ہوئے متاثرین کے معاوضہ جات کی ادائیگیوں کو فوری طور پر یقینی بنائے۔

دریں اثناء کمیٹی کے بلانے کے باوجود چیف سیکریٹری بلوچستان کی عدم شرکت پر کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیوروکریسی کو پارلیمنٹرین اور سیاستدانوں کو حقیر تصور کرنے کی منفی ذہنیت سے باہر نکلنا ہوگا، کمیٹی نے چیف سیکریٹری بلوچستان کے منفی اور عدم تعاون پر مبنی رویے کے خلاف تحریک استحقاق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کے ہاں بھجوائی ہے۔

یادرہے کہ ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود میرانی ڈیم متاثرین کے معاوضہ جات کی عدم ادائیگیوں کا معاملہ گزشتہ مہینوں کے اندر بلوچستان کے سابق ایڈوکیٹ جنرل اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ناظم الدین ایڈوکیٹ کی جانب سے پارٹی کے سینیٹر کبیر محمد شہی کی توسط سے سینیٹ میں توجہ دلاؤ نوٹس پر اٹھایا گیا تھا۔

جسے چیئرمین سینیٹ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے سپرد کیا تھا، بعد ازاں مذکورہ کمیٹی کے ایک اجلاس جس میں ناظم الدین ایڈوکیٹ، سینیٹر اکرم دشتی اور سینیٹر کبیر محمد شہی بھی شریک تھے، میں فیصلہ کیا گیا کہ متاثرین کو معاوضہ جات کی ادائیگی 2004ء کے بجائے 2019ء کے نرخوں کے مطابق کی جائے۔