|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2019

پوری دنیا میں اس وقت جو جنگ چل رہی ہے وہ ہے معا ش کا۔ ایک ملک دوسرے ملک پہ چڑھائی کر رہا ہے غرض صرف وہاں کی معیشت پر قابض ہو کر راج کرنا۔معیشت کی اس جنگ میں کئی ممالک بازی جیت جاتے ہیں تو بہت سوں کو مات کھانی پڑتی ہے۔ پھر یہ ایسی گھن چکر ہے کہ اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔معیشت کے اس کھیل میں سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے۔ اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم عمل میں آتی ہے۔

کئی ممالک کا معاشی نظام وہاں کی سیر و سیاحت پر انحصار کرتا ہے۔ کہیں فلم انڈسٹری کسی کا معاشی بوجھ اٹھانے کا کام کرتا ہے۔ اب اگر بات خلیجی ممالک، سعودی عرب یا ایران کے معاشی نظام کی کریں تو وہاں کے معاشی نظام کو استحکام دینے کے لیے تیل کے ذخائر بارآور ثابت ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسے ممالک ہیں کہ جن کا معاشی نظام اسلحہ سازی کے بل بوتے پر چلتا ہے ان کی کوشش ہی یہی ہوتی ہے کہ امن فقط ایک خواب ہو اس کے قریب کسی کو بھٹکنے نہ دیا جائے ورنہ تو ان کا معاشی نظام ایک دم بیٹھ جائے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں کہ جن کا معاشی نظام منشیات کے ذریعے دوام پاتا ہے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ منشیات کا دائرہ کار جتنی زیادہ بڑھانا چاہیں بڑھائیں اور کاروبار بنائیں۔

آپ اگر شمالی علاقہ جات کا رخ کریں تو وہاں کی آبادی ذریعہ معاش کے لیے اول سیاحت اور زرخیز پہاڑوں پر انحصار کرتی ہے۔ سیاحت کی غرض سے ملک کے دور دراز علاقوں سے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے سرمائے کا کچھ حصہ خرچ کرتے ہیں یہی پیسہ وہاں کی آبادی کی آمدن کہلاتی ہے جن سے ان کی گزر بسر ہوتی ہے۔ دوئم یہ کہ وہاں کی پہاڑیاں بھی زرخیز ہیں جن پروہاں کی آبادی کی دسترس ہے فصل اگا کر اخراجات کا بوجھ کم کرتے ہیں۔مگر بلوچستان کا معاشی نظام بہت ہی پیچیدہ ہے۔ بلوچستان کی سرزمین پہاڑوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے مگر اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتا۔ پہاڑیاں فصل پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتیں،زیر زمین ذخائر عام آدمی کے دسترس میں نہیں جن سے استفادہ کرکے معیشت کو متوازن بنائی جائے۔

حالیہ دنوں آئی ایم ایف معاہدہ اور پیسے کی قدر گرنے کے بعد پاکستان بھر میں معیشت پر مباحثہ چل رہا ہے۔ مگر بلوچستان میں اس حوالے سے اب تک خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ اتھل پتھل اور معاشی ناگزیر صورتحال سے کیا بلوچستان کے عوام متاثر نہیں ہوں گے۔ اگر ہوں گے تو اس کے حوالے سے اس پر بحث کیوں نہیں کیا جاتا یا ہمارے ہاں معیشت کی الف ب جاننے والے اس سے متعلق عام آدمی تک آگاہی کیوں نہیں پہنچاتے کہ اس صورتحال سے وہ کتنے فیصد متاثر ہوں گے۔

اب یہ سوال کہ بلوچستان میں معیشت زیر بحث کیوں نہیں آتی اس کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں سب سے بڑی وجہ یہ کہ قدرتی وسائل جو بلوچستان سے نکلتے ہیں ان پر بلوچستان کا دسترس نہیں۔ اور وفاق سے جو رقم بلوچستان کو ملتی ہے وہ بلوچستان کی ڈویلپمنٹ کیا کوئٹہ شہر کی ڈویلپمنٹ کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ اور بلوچستان کی آبادی کا جو بڑا حصہ دیہی کہلاتی ہے۔ وہاں کی ترقی اور ذریعہ معاش کو استحکام دینے کے لیے حکومت بیگانگی کا شکار ہے۔ وہاں کی آبادی ذریعہ معاش کے لیے انحصار زراعت، گلہ بانی، ماہی گیری پر کرتی ہے اس جانب حکومتی توجہ نہیں جاتی اور نہ ہی ان سیکٹرز کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔

یعنی ایک لحاظ سے دیہی علاقوں سے بیگانگی سرکار اور عوام کے درمیان ایک خلیج پیدا کرتی ہے۔ اور خلیج کی اس فضا میں عام آدمی معاشی نظام کے حوالے سے نہ ہی بحث مباحثوں میں حصہ لیتا ہے اور نہ ہی رائے دیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان کا عام آدمی اپنی معیشت کو دوام دینے کے لیے وہ کونسے اقدامات اٹھاتی ہے جس سے ان کی گزر بسر کا سامان ہو۔ ہم یہاں بلوچستان کے ان معاشی سیکٹرز کا جائزہ لیتے ہیں جن پر عام آدمی کی دسترس ہے معاشی نظام سے باخبر یا بے خبر وہ اپنا نظام کسی نہ کسی طریقے سے چلا رہا ہے۔ بلوچستان کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں زندگی گزار رہی ہے۔ شہری زندگی کا تصور صرف دو ہی علاقوں کوئٹہ اور حب میں پایا جاتا ہے۔ حصولِ روزگار، کاروبار، حصولِ علم کے لیے ان شہروں کا رخ کرنے کی وجہ سے یہ روز بروز گنجان ہوتے جا رہے ہیں۔

کوئٹہ جتنا گنجان ہوتا چلا جا رہا ہے اتنی ہی مہنگائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ عام آدمی کے لیے رہائش اور روزگار دونوں حوالے سے یہ مشکل شہر ہوتا جارہا ہے۔ جو لوگ روزگار کی نیت سے کوئٹہ کا رخ کرکے یہاں چلے آتے ہیں تو ایک قلیل تنخواہ کے ساتھ بڑی مشکل سے وہ اپنی زندگی کا پہیہ گھماتے ہیں۔ کمائی کا زیادہ حصہ رہائش، یوٹیلٹی اور سفری اخراجات پر خرچ کرتے ہیں اور جو بچ جاتا ہے وہ بڑی سے مشکل سے گھر کا چولہا جلانے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔

اتنی مہنگائی میں اس کے پاس بچت کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ہوتا جسے اپنا کر وہ اپنے گھر بار کے لیے بھیج سکے۔ یعنی جو آپ کماتے ہیں اسے شہر کے اندر ہی خرچ کریں۔اب اس شہر میں عام آدمی کے اخراجات آمدن سے بڑھتے چلے جا ر ہے ہیں۔ جتنی آمدن بڑھتی چلی جا رہی ہے اسی حساب سے اس کی الجھنوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یہ ایسے مسائل ہیں جو آنے والے وقتوں میں حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں۔ چوری، ڈکیتی، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر بات حب شہر کی کریں تو وہاں کا رخ کرنے والے لوگ وہی ہیں جو حصولِ رزق کی تلاش میں شہر کا رخ کرکے حب شہر آتے ہیں شہر کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کارخانوں کی وجہ سے یہ شہر تمام صوبوں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں کی گزر بسر بڑی مشکل سے ہو تی ہے۔ کاروبار کا ایک اور ذریعہ یہاں کی زمینیں ہیں جو خریدی اور بیچی جا رہی ہیں۔روپے کی قدر جس تیزی سے گر رہی ہے۔ اس تیزی سے یہاں کے باسیوں کا جینا دوبھر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ان کے لیے یوٹیلٹی بلز اور دیگر اخراجات کو برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے بسا اوقات ایسے ہو جاتا ہے کہ شہروں کی طرف منتقل ہونے والے افراد ذریعہ معاش کے حصول میں ناکامی کی صورت میں واپس دیہی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔

اب ہم آتے ہیں دیہی علاقوں کی طرف۔ بلوچستان کی ایک وسیع آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جو ذریعہ معاش کے لیے انحصار زراعت پہ کرتی ہے اور ایک قلیل تعدادگلہ بانی پر۔ زراعت سے حاصل ہونے والی آمدن ان کی سالانہ معیشت کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ زراعت کا یہ شعبہ زمیندار اور ہاری مل کر چلاتے ہیں۔ دیہی علاقوں کی معیشت کا یہ ذریعہ زیادہ تر خسارے میں ہی رہتا ہے۔ اول تو یہ کہ بلوچستان میں نہری نظام موجود نہیں۔

زرعی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے ٹیوب ویلوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ٹیوب ویلوں کا یہ نظام تیل پر چلتا ہے اور تیل کی قیمتیں آئے روز بڑھنے سے زمیندار اور ہاری کو فصل تیار ہونے تک بھاری بھرکم خرچہ اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے۔ منڈی، مارکیٹوں کے اتار چڑھاؤ سے ناواقف یہ زمیندار خسارے میں رہتے ہیں ہر سال اسی امید پر پیاز، گندم، ٹماٹر، کپاس اور دیگر فصلیں کاشت کرتے ہیں کہ ان کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوگا مگر ایسا نہیں ہوتا۔ ہر بار ان کی امیدوں پر پانی پھیرجاتا ہے اور قرضوں کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

زرعی ادارے تو موجود ہیں مگریہ ادارے نہ ہی کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں، نہ ہی انہیں فصلوں سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی فصل کی مارکیٹ تک رسائی کو آسان بناتے ہیں۔زمیندار یہ کام اپنی مدد آپ کے تحت کرتے ہیں۔روپے کی قدر گھٹ رہی ہے یا بڑھ رہی ہے۔ مارکیٹ میں فصل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہییا کمی آ رہی ہے زمیندار لا علم۔ اسے صرف اتنی خبر ہے کہ اس نے اپنی زمینوں کو آباد کرنا ہے۔ (جاری ہے)