|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2019

کوئٹہ : اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے خلیج فارس میں لڑی جانے والی جنگ سے بلوچستان براہ راست متاثر ہوگا پارلیمنٹ کی خودمختاری، آئین کی بالادستی،چور درواز ے سے اقتدارمیں آنیوالوں کا راستہ روکنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو نیشنل ایجنڈے کا تعین کرنا چائیے۔

ان خیالات کا اظہار سراوان ہاؤس میں دیئے گئے افطار ڈنر سے بی این پی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی، قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ، بی این پی کے سینئر نائب صدر ملک ولی کاکڑ، ن لیگ کے صوبائی جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ، اے این پی کے رشید ناصر، جمعیت نظریاتی کے قاری مہر اللہ اور منان گوہر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر چیف آف سراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی،بی این پی کے سینئر نائب صدر پرنس موسیٰ جان بلوچ،اراکین اسمبلی مولوی نور اللہ، اختر حسین لانگو،احمد نواز بلوچ، اکبر مینگل، سابق اراکین قومی اسمبلی میر عبدالرؤف مینگل، عثمان بادینی، میر ہمایوں عزیز کرد،بی این پی کے نوابزادہ اورنگزیب جوگیزئی،ہزار ہ سیاسی کارکنان کے سربراہ طاہرہزارہ، طاہر ایڈوکیٹ، ن لیگ کے نسیم الرحمن، بلوچستان عوامی پارٹی ملک جان محمد لہڑی،سابق صوبائی وزراء میر عاصم کرد گیلو، محمد اسماعیل گجر، جعفر خان جدون، الطاف حسین گجر،رانا سفیر،قاضی عبدالحمید،نوابزادہ جمال جوگیزئی،حمید بگٹی،جماعت اسلامی کے عبدالمتین اخونذادہ انجمن تاجران کے عبدالرحیم کاکڑ،چیمبر آف کامرس فاروق خلجی،رشیداعوان، نثار شاہ،ایاز سیٹھو،خالد سخی، شفیق کاکڑ،قاری اختر شاہ کھرل،رحیم ترین،لالا یوسف بنگلزئی، بلوچستان کنٹریکٹر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری میر طارق رئیسانی سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں میڈیا نمائندوں سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

اس موقع پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے افطار ڈنر میں شرکت پر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت مسلسل کہہ رہی ہے کہ عمران خان سلیکٹڈ لیڈرکٹھ پتلی وزیر اعظم ہیں میرا ان سے سوال ہے کہ پاکستان کے 200 ملین لوگوں کو بتائیں کہ کٹھ پتلی وزیراعظم کی ڈور اور کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے، کس نے انہیں سلیکٹ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں سیاسی جماعتوں پر نیشنل ایجنڈے کا تعین کرنے پر زور دیا تھا آج میں اس اجتماع کے توسط سے انکے اس موقف کو دوبارہ دوہراتے ہوئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ نیشنل ایجنڈے کا تعین کریں بی این پی اس کی میزبانی کرنے کو تیار ہے۔ تعین کیاجائے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کون بنائے گا،1940 کی قرار داد میں صوبوں کو آئین میں دیئے گئے۔

اختیارات کس طریقہ سے ملیں گے، راتوں رات اسٹیبلشمنٹ کیساتھ ساز باز کرکے اقتدار میں آنے والوں کا راستہ کیسے روکا جائے گا تاکہ قومیتوں کو احساس دلایا جائے کہ فیڈریشن میں ان کی نمائندگی اورساحل وسائل انکے اختیار میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں میثاق جمہوریت کے بعد میثاق معیشت کی باتیں کرنے والی اسٹیلشمنٹ کا شیوہ رہا ہے کہ اس نے کھبی شخصیات کے بت تراشے ہیں تو کھبی گائے کا بت تراش کر میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تراشے بتوں کوسجدہ کرنے پر مجبورکیا ہے انہوں نے کہا کہ تاریخ رہی ہے کہ ملک میں ہتھوڑا گروپ کے ذریعے دہشت پھیلانا، سو بچوں کا قتل عام، ایان علی کے ڈالر کی ریل پیل کا تذکرہ،ڈیم بنانے کیلئے ایک جج کو بیٹھنا، افتخار چوہدری کا ڈرامہ رچاکر سول سوسائٹی کو ان کے پیچھے لگانا عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کا تسلسل ہے۔

انہوں نے کہا کہ 70 سالوں سے پاکستان کا کردار ایک فرنٹ لائن ریاست کا رہا ہے اورہم سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے چلے آرہے ہیں تمام سیاسی جماعتوں کوسوچنا چائیے کہ اگر پاکستان فرنٹ لائن ریاست کیلئے بنایا گیا ہے تو کیا اس ریاست میں دو سو ملین لوگوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے بہترین مستقبل کافیصلہ کرکے ایک منزل اور ایک ہدف کا تعین کریں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں گزشتہ70 سالوں سے شکوے اور شکایتیں کرنے والی سیاسی جماعتوں کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کیلئے ایک نیشنل ایجنڈے کا تعین کریں۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے ایران اور امریکہ میں جاری کشیدگی کو بلوچستان کیلئے خطرہ کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہے کہ خلیج فارس میں ہونے والی ایٹمی جنگ کا پاکستان حصہ بنے گا یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ خلیج فارس میں لڑی جانے والی جنگ میں روس فریق بنے گا اور اس جنگ سے بلوچستان کے لوگ متاثر ہونگے۔ افطار ڈنر سے بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جمعیت نے انتخابات کے دوسرے روز ہی مرکزی سطح پر اعلان کیا کہ سلیکٹڈ حکومت ہے ان کے بس میں کوئی چیز نہیں۔

جمعیت نے ملک میں ملین مارچ کئے ہیں جس کے نتیجہ میں گزشتہ روز اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین یکجا ہوئے اور فیصلہ کیا گیا کہ عیدکے بعد پاکستان کے عوام کے حقوق کے دفاع کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے نو مہینے مسلسل حکومت کو سمجھانے کی کوشش کہ حکومت اپنا موقف واضح کرے کہ آیا وہ صوبے کے کیساتھ ہے یا کسی اور کیساتھ ہے حکومت اس دوران مسلسل جھوٹ بولتی رہی کہ پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کیلئے مختص 80 ارب روپے استعمال کئے جارہے ہیں مگر بدقسمتی سے استعمال ہونے والی رقم لیپس ہوگئی جس سے صوبے کے لوگوں کو 80 ارب روپے کا نقصا ن ہوا ہے۔

یہ پیسے اگر صوبے پر خر چ ہوتے تو آج بلوچستان کا منظر نامہ کچھ او ر ہوتا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اپنے سرمائے سی پیک سے دنیا کو روشناس کرایا جارہاہے مگر بلوچستان کے لوگوں کیلئے اسے شجر ممنوعہ بنایا گیا ہے این ایف سی ایوارڈسے متعلق بھی بلوچستان حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ اسے کیا کرنا چائیے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد عوام کیساتھ ملکر بلوچستان کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑیں گی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک ولی کاکڑ نے کہا کہ امریکہ اور ایران میں کشیدگی کا اصل ہدف گوادراور بلوچ علاقے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ کے اثرات ملک کے مفاد میں نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں کبھی جمہوریت نہیں آئی جمہوریت اور عدالتیں ایک مخصوص گروہ کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور وہ گروہ روز بروز طاقت ور بناتا جارہا ہے اور سیاسی جماعتیں کمزور ہوتی چلی جارہی ہیں۔اجتماع سے مسلم لیگ ن کے صوبائی سیکرٹری جنرل جمال شاہ کاکڑ، اے این پی کے رشید ناصر، جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے قاری مہر اللہ، عبدالمنان گوہر ودیگر نے بھی خطاب کیا۔