|

وقتِ اشاعت :   May 26 – 2019

بلوچستان کی آبادی کا ایک حصہ معاش کے حصول کے لیے بیرونی ممالک کا رخ کرتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جنھیں گھر کی دہلیز پر مزدوری بھی دستیاب نہیں، اور محنت مزدوری کے لیے سالہا سال باہر زندگی گزارتے ہیں۔ کمائی کا آدھا حصہ خود پر خرچ کرتے ہیں اور بچ جانے والی رقم گھر والوں کے لیے بھیجتے ہیں۔ چونکہ بلوچستان کی دیہی آبادی بجلی، گیس اور پانی کی سہولت سے محروم ہے تو یہ لوگ بہ نسبت شہریوں کے یوٹیلٹی بلوں سے آزاد ہیں۔ سو اگر بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں بڑھ بھی جاتی ہیں تو بھی دیہی لوگوں پر اس کا براہِ راست اثر نہیں پڑتا (یہ نہیں کہ وہ ان سہولیات سے استفادہ حاصل نہیں کرنا چاہتے) اگر اثر پڑتا ہے تو اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھ جانے کا اثر ہوتا ہے۔

بیرونِ ملک مزدوری کرنے والے یہ لوگ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں سے قطعاً بے خبر اپنی اسی تنخواہ سے بچ جانے والی رقم گھر والوں کو بھیجتے ہیں اور روپے کی قدر گر جانے اور گھر کا خرچہ بڑھ جانے سے گھر والوں کی طرف سے مزید رقوم کی ڈیمانڈ آتی ہے۔ میں ایسے بے شمار لوگوں کو جانتا ہوں جن کی ساری عمر معیشت کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے گزر گئی۔ مگر معیشت کی ان گھن چکروں سے وہ کبھی بھی آزاد نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے نے انہیں آن گھیرا۔ ہمارے ہاں بزرگ لوگ روپے کی گرتی ہوئی قدر پر بسا اوقات یہی کہتے ہیں ”کیا زمانہ تھا ہمارا۔۔ ایک سو روپے میں پورا گھر چلتا تھا اب 30ہزار میں بھی گزارہ نہیں ہوتا کیا زمانہ آگیا“۔ بزرگ سارا ملبہ زمانے پر ہی ڈالتے ہیں۔اب تو ایک بچے کی تعلیم پر 15ہزار روپے سے زائد کا خرچہ آتا ہے۔ جن کا ذریعہ معاش اچھا ہے وہ اپنے بچوں کو علم کے حصول کے لیے شہروں کی طرف بھیجتے ہیں اور جو لوگ غربت کی زندگی کی گزار رہے ہیں وہ بند سرکاری اسکولوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید تعلیم کا دروازہ ان کے بچوں کے لیے کھل جائے۔

بلوچستان کی آبادی کا ایک اور حصہ ذریعہ معاش کے لیے انحصار سرحدی کاروبار پر کرتا ہے۔ بارڈر کا یہ کاروبار قانونی اور غیرقانونی دونوں طریقوں سے ہوتی ہے۔ قانونی طریقے سے بڑے سرمایہ دار سرمایہ کاری کرتے ہیں جبکہ غیرقانونی طریقے سے کاروبار عام لوگ کرتے ہیں جواپنی جمع پونجی لگا کر چھوٹے پیمانے پر کاروبار شروع کرتے ہیں۔ ان کا یہ کاروبار اشیاء خوردو نوش، تیل، زرعی کھاد اور دیگر ضرورت کے سامان پر مشتمل ہوتا ہے۔ غیرقانونی طریقے سے یہ کاروبار بسا اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ کبھی کبھار سڑک حادثات کے نتیجے میں کبھی اونچے پہاڑوں سے گاڑیوں کو لانے اور لے جانے سے کبھی فائرنگ کے نتیجے میں۔ رسک تو ہے مگر زندہ رہنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ایرانی اشیاء پر لوگوں کا انحصار اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وہاں کا تیل اور اشیاء خوردونوش سستا ہوتا ہے۔ اور اشیا ء خوردونوش کی کوالٹی پاکستانی اشیا ء سے بہتر ہوتی ہے۔ سرحدی علاقوں سے منسلک علاقوں میں ایرانی اشیاء خوردونوش ہی ملے گا۔ حالیہ دنوں ایران پاکستان تعلقات، گوادر واقعات اور باڑ لگانے کی خبروں نے عام آدمی کو اس خدشہ میں مبتلا کیا ہے کہ کہیں یہ چھوٹے پیمانے کا کاروبار ان کے ہاتھوں سے چلا نہ جائے، نوبت فاقوں تک نہ آجائے۔ اگر یہی صورتحال پیدا ہوجائے تو عام آدمی کے لیے جن کا ذریعہ معاش انہی ایرانی اشیاء پر مشتمل ہوتا ہے ان کے لیے کاروبار کا متبادل ذریعہ کیا ہو سکتا ہے۔

ایک قلیل تعداد سرکاری ملازمتوں پہ انحصار کرتا ہے۔ یہ ملازمین بڑی مشکل سے اپنا گھر بار چلاتے ہیں۔ پاکستانی روپیہ جتنا گر تا ہے اتنا ہی اس کا اثر ملازم طبقے پر زیادہ ہوتا ہے کہ ان کی تنخواہیں اسی حساب سے نہیں بڑھتیں۔ اگر تنخواہیں نہیں بڑھتیں اور گھر کا چلانا مشکل ہوجائے تو یہ دوسرے حربے استعمال کرتے ہیں عوامی خزانہ کرپشن کی نذر کرتے ہیں۔

آپ کے مشاہدے میں یہ بات ضرور آئی ہوگی کہ نیب کی پکڑ دھکڑمیں آج کل ملازمین بھی آرہے ہیں چند روز قبل کی خبر ملاحظہ کریں کہ خزانے کے دو ملازمین کو کرپشن کرنے پر نوکری سے نکالا گیا۔ اگر ایسا ہے تو میرے خیال میں کرپشن کا دائرہ کار ایک دو افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ چلیں یہ وہ طبقہ ہے جو کسی پوزیشن پر ہے اور اپنے مالی معاملات کو دوام دینے کے لیے سرکاری خزانہ چھان مارتے ہیں۔ درجہ چہارم کا ملازم اپنی قلیل تنخواہ کے اندر گزارہ کرتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کہیں کوئی بیماری لاحق ہوجائے تو سوسائٹی کا یہ طبقہ اسے جھیل نہیں پاتا۔ علاج گاہوں تک دسترس نہیں پاتا۔ اور بیماری سے گھٹ گھٹ کر جان دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ ہے ”اللہ غریب ءَ را نادراہ مہ کنت“ (اللہ کسی غریب کو بیمار نہ کرے)۔ اس محاورے میں غربت کی ایک طویل داستان موجود ہے۔
ایک طبقہ شعبہِ ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ ساحلی بیلٹ سے منسلک آبادی ذریعہ معاش کے لیے اسی شعبے پر انحصار کرتا ہے۔ مچھیروں کی بستیاں ہیں۔ ان کی روزی روٹی جالا، کشتیاں ہیں۔ سطح سمندر پر تیرتی ہوئی کشتیاں سمندر کے اندر تیرتی ہوئی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ مگر مقامی ماہی گیروں کو اکثر و بیشتر غیرمقامی ٹرالر مافیا سے خطرہ رہتا ہے۔ جو وارد ہوتے ہی پورا سمندر کھا جاتے ہیں اور مقامی ماہی گیر انہیں فقط حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ ٹرالر مافیا کے سامنے ایک وسیع سمندر ہوتا ہے جس میں وہ غوطہ لگاتے ہیں خزانہ چھان مارتے ہیں جبکہ مقامی ماہی گیروں کے پاس ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

اب تو نئی قدغنیں لگنے والی ہیں۔ اور ان کے گر گھیرا مزید تنگ کیا جائے گا۔ یہ وہ ماہی گیر ہیں جن کے پاس کمائی کے اور ذرائع موجود نہیں ہیں جب ان کے لیے سمندری راستہ بند کیا جائے گا تو معاش کے میدان میں یہ فقط خالی ہاتھ پاؤں مارتے رہیں گے۔مقامی ماہی گیروں کے پاس اپنی زندگی کا پہیہ گھمانے کے لیے یہی کل سرمایہ ہے۔ مقامی ماہی گیر اپنی جمع پونجی سرمایہ داروں کے حوالے کرتے ہیں اور سرمایہ دار کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ماہی گیروں سے کتنے دام میں یہ مچھلیاں خرید لیں۔

پاکستان کا مالا مال صوبہ اس وقت غربت کی شرح میں سب سے آگے ہے۔ آبادی بھی اتنی نہیں ہے مگر وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے یہاں کی آبادی میں غربت کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 62فیصد دیہی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔جس کی ایک بنیادی وجہ پاکستان میں دولت کی تقسیم رقبے کے بجائے آبادی پر ہے۔ اور جو کچھ بلوچستان کے حصے میں آتا ہے اس کی پھر شکایتیں آنی شروع ہوجاتی ہیں کہ انہیں خرچ نہیں کیا جاتا۔ ایک غیرمنصفانہ معاشی نظام میں بلوچستان آج تک اپناماہرِ معاشیات پیدا نہیں کر سکااور نہ ہی بلوچستان کی زمینی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دولت کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔

قیصر بنگالی کی ماہرانہ خدمات مالک دور میں لیے گئے مگر یہ خدمات بلوچستان کے لیے اثرمند ثابت نہیں ہو سکیں۔ بہرکیف سی پیک سے متعلق ان کی ایک کتاب ضرور سامنے آئی۔ بلوچستان کی معاشی نظام کے حوالے سے معروف صحافی مرحوم صدیق بلوچ کی دو کتابیں “Balochistan Its Politics and Economics” اور “Political Economy of Balochistan”شائع ہوئیں جس میں قاری کو بلوچستان کی معیشت کی بنیادی اکائیوں سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم بلوچستان کی سرزمین سے کتنی معدنیات نکلتی ہے اور معدنیات سے منافع کتنا حاصل ہوتا ہے اور بلوچستان پر اسے کس طرح خرچ کیا جاتا ہے اس حوالے سے بلوچستان کو علم ہے اور نہ اسے اس لائق سمجھا جاتا ہے کہ اسے بتایا جائے کہ اسے کتنا لوٹا جارہا ہے۔ (جاری ہے)