محکمہ صحت نے میڈیا میں سرکاری ہسپتالوں کو غیر معیاری ادویات کی فراہمی کے حوالے سے متعلق خبر پروضاحت کی ہے کہ وقتاً فوقتاً محکمہ صحت کو فراہم کی گئیں ادویات کا ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کوئٹہ سے تجزیہ کروایا جاتا ہے جو کہ محکمہ صحت کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ حال ہی میں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے رپورٹ ارسال کی ہے کہ تجزیہ کرنے پر 3 ادویات کو غیر معیاری پایا گیا۔
ان غیر معیاری ادویات میں بچوں کے بخار کا شربت الیو، اکروموکس سسپنشن اور سیپاڈائن شامل ہیں جو پاکستان فارما نے فراہم کی ہیں۔اس سلسلے میں مورخہ 21 مئی 2019 کو ایک مراسلے کے ذریعے محکمہ صحت نے فوری کاروائی کرتے ہوئے تمام ہسپتالوں کو بزریعہ چیف ڈرگ انسپکٹر مطلع کیا ہے کہ مذکورہ 3 غیر معیاری ادویات کی مریضوں کو فراہمی فوری طور پر بند کی جائے اور میڈیکل اسٹور ڈپو جوکہ ادویات کی سپلائی اور خریداری کا ذمہ دار ادارہ ہے کو مطلع کیا ہے کو فوری طور پر یہ ادویات ہسپتالوں سے جمع کرکے تلف کرکے کمپنی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے اور ان ادویات پر ادا کی گئی رقم فوری طور پر وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کروائی جائے۔
محکمہ صحت بلوچستان ایک اور مراسلہ مورخہ 25 مئی 2019 کے ذریعے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو مزید ہدایات جاری کی ہیں کہ پاکستان فارما کی طرف سے تمام 16 پراڈکٹ کا فوری طور پر تجزیہ کرکے 48 گھنٹوں کے اندر رپورٹ جاری کی جائے تاکہ اس بات کی یقین دہانی کی جاسکے کہ اس کمپنی کی تمام پراڈکٹس معیاری ہیں یا نہیں اور تجزیہ رپورٹ آنے پر مزید کاروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ اسی طرح کی شکایات کے پیش نظر محکمہ صحت نے ادویات کی خریداری کو شفاف اور بہتر بنانے کیلئے ٹینڈر کی ایک موثر دستاویز تیار کی ہے جس میں تمام ٹیکنیکل لوگوں کی رائے شامل کی گئی ہے تاکہ بہترین ادویات اور آلات کی خریداری ممکن ہوسکے۔
محکمہ صحت کی جانب سے یہ اقدام قابل ستائش ہے کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے جعلی اور غیر معیاری ادویات کا کاروباری بلوچستان بھرمیں جاری ہے خاص کر کوئٹہ میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے جس سے کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں، بلوچستان کے عوام کیلئے یہ ایک اچھی خبر اور امیدکی کرن ہے کہ جعلی ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف زبردست کارروائی کرکے جلدہی جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لایاجائے گا جوصوبائی حکومت کی مافیا کے خلاف جیت ثابت ہوگی اورملک کا پہلا صوبہ ہوگا جہاں پر جعلی اور غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت نا ممکن بناد ی جائے گی۔
اگر دیکھاجائے تو یہ معاملہ صرف کوئٹہ تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں پھیلا ہوا ہے جس کے خلاف کارروائی اور آگاہی مہم میں تیزی لانے کی ضرورت ہے اس بات کو بھی یقینی بنایاجائے کہ جتنی ادویات کی خرید و فروخت کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں ان کا جائزہ لیاجائے تاکہ انہیں فوری سیل کرتے ہوئے عوام کو زہرفروخت کرنے والے مافیا سے چھٹکارا دلایا جائے۔
گزشتہ ادوار میں کرپٹ انتظامیہ کی موجودگی میں دکاندارکھلے عام جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کرتے تھے، اکثر دکاندار بھی مستند ایجنٹ کی بجائے نا معلوم افراد سے ادویات کی خریدو فروخت کو ترجیح دیتے تھے اور پچاس سے لے کر اسی فیصدتک منافع حاصل کرتے تھے۔ چنانچہ کوئٹہ کے ہر محلے میں ادویات تیار کرنے کی فیکٹریاں کھل گئیں جن کا مکمل قلع قمع بھی کیاجانا ضروری ہے۔
بلوچستان میں ایک اندازے کے مطابق 3000میڈیکل اسٹور ہیں جن میں سے ایک تہائی کے پاس با قاعدہ اجازت نامہ ہوگا، باقی زیادہ تر غیر قانونی ہیں۔ ادویات کی بڑی کھیپ پنجاب اور سندھ سے آتی ہے ان میں ایک بہت بڑی تعداد غیر معیاری ادویات کی ہوتی ہے۔مبینہ طور پر اس سارے عمل کو ڈرگ مافیا کنٹرول کرتا ہے یہ اربوں روپے کا بزنس ہے۔ کوئٹہ شہر کے بعض علاقوں میں جعلی ادویات کی فیکٹریاں آج بھی موجود ہیں جو انسانی زندگی سے کھیل رہی ہیں،حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ ایماندار آفیسران پر مشتمل ٹیم بنائے جو بغیر کسی اثر ورسوخ اور دباؤ کے انسانی جانوں سے کھیلنے والے مافیا کے خلاف کارروائی کرے۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے حالیہ چلنے والی مہم یقیناًقابل تحسین ہے مگر اب تک جعلی ادویات بنانے والے عناصر سرگرم ہیں اور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں اپنا کاروبار پھیلا چکے ہیں جس سے نہ صرف یہاں کے غریب عوام کو لوٹا جا رہا ہے بلکہ ان کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔