نام…… یوسف علی خان
تخلص…… عزیز
المعروف…… یوسف عزیز مگسی
قبیلہ…… مگسی
ولدیت…… نواب قیصر خان سوئم
والدہ…… مائی پھلین دختر نواب پسند خان زہری چیف آف جھالاوان
برادر کبیر…… ……گل محمد خان زیب مگسی
برادر صغیر…… ……محبوب علی خان
پیدائش…… ……جنوری۸۰۹۱ء
ضلع…………حال گنداواہ! سابقہ کچھی
ابتداء تعلیم…………۳۱۹۱ء
اساتذہ کرام۔…… ……اُردو، فارسی، عربی کا استاد، مولانا غلام قادر
اسلامی تعلیم کا استاد،…………قاضی رسول بخش
انگریزی تعلیم کا استاد………… کھیا لال (بی اے)
بحیثیت نواب دستار بندی…… ۳۳۹۱ء
سلسلہ ئے سردار………… بائیسواں
وارد سیاست………… ۹۲۹۱ء
وارد شعرو ادب…………۹۲۹۱ء
زبان شناسی………… بلوچی، فارسی، اُردو، انگریزی، سندھی، براہوئی، سرائیکی
پہلا سیاسی مقالہ………… فریاد بلوچستان (مساوات)لاہور۷۱ نومبر ۹۲۹۱ء
آخری مقالہ۔………… قبل از زلزلہ ۵۳۹۱ء ”سیاست مقدم ہے یا اقتصادیات“
دیگر مقالات۔…………پیغام عمل، سوگنڈ، بلوچستان کی بیداری اور سرمایہ داروں کی سرائمگی، ”اہل بلوچستان کے نام الوداعی پیغام“
افسانہ۔…………تکمیل انسانیت (بلوچستان جدید)
گرفتاری۔………… جون۰۳۹۱ء بمقام سبی
مقید سینٹرل جیل مستونگ………… ……۰۳۹۱ء تا ۶۱ جولائی ۰۳۹۱ء
میر عبدالعزیز کرد کا رابطہ۔……………… جولائی۰۳۹۱ء دورزان اسیری مستونگ
انجمن اتحاد بلوچستان میں شمولیت کی دعوت………… جولائی ۰۳۹۱ ء دوران اسیری مستونگ
جرگہ سے سزا…………ایک سال نظر بمقام زہری گٹ۰۰۹۲۱ روپے جرمانہ
نظر بندی زہری گٹ۔………… ۷۱ جولائی ۰۳۹۱ء ت ا جولائی ۱۳۹۱ء
بحیثیت صدر انجمن اتحاد بلوچستان نامزدگی…………جولائی ۱۳۹۱ء بمقام پڑنگ آباد مستونگ
علی الاعلان تنظیم کاری………… جولائی۱۳۹۱ء
مجھل میں ظلم و ستم کیانتہاء………… اکتوبر و نومبر ۱۳۹۱ء مگسی ہجرت نومبر ۱۴۹۱ء
دیباچہ شمس گردی………………نومبر ۱۳۹۱ء
اشاعت شسم گردی………… ۰۲نومبر ۱۳۹۱ء بمقام لاہور
آئینی ذمہ دار حکومت، منتخب اسمبلی اور لائق وزراء پر مشتمل کابینہ کا مطالبہ۔ نومبر۱۳۹۱ء
خان محمود خان کی وفات اور میر محمد اعظم جان کی مشروط حمایت………… نومبر ۱۳۹۱ء
وزیر اعظم سرشمس شاہ اور میر محمد انور کے خلاف متحدہ محاذ کی قیادت…………نومبر ۱۳۹۱ء
میر محمد اعظم کی یوسف عزیز کی متحدہ محاذ کی حمایت سے بطور خان دستار بندی……نومبر ۱۳۹۱ء
سر شمس شاہ کی برطرفی میں کامیابی…………دسمبر ۱۳۹۱ء
بلوچستان ڈے منانے کا اعلان…………بمقام ملتان۴۱ اکتوبر۲۳۹۱ء
بلوچستان کی آواز پر پمفلٹ کا اجراء…………مئی ۳۳۹۱ء
بلوچستان کا نقشہ…………مشاورت میر یوسف عزیز مگسی(ترتیب)عبدالعزیزکرد
سرپرست اخبارات…………آزاد لاہور کے علاوہ البلوچ بلوچستان جدید، بلوچستان ینگ، بلوچستان الحفیف، اتحاد بلوچاں
اجراء اخبارات………… بمقام کراچی، سکھر
ایڈیٹرز………… پیر بخش نسیم تلوی، محمد حسین عنقاء، محمد حسن نظامی، مولوی محمد حسین
دیگر جرائد میں مضمون نویسی، ………… زمیندار، انقلاب، الوحید، مسلمان ررہنماء، نور السلام
بحیثیت نواب اسٹیٹ کونسل میں نمائندگی………… ۳۳۹۱ء
عظیم تعلیمی، تعمیری و فلاحی منصوبے………… ۳۳۹۱ ء
جامعہ یوسفیہ کا قیام………… جھل میں جبری تعلیم کا اطلاق اور اپنی زرعی پیداوار کا ایک حصہ تعلیم کے لئے مختص، لندن میں بلوچ طلباء کے لئے دار الاقامت بنانے کی تجویز، دار الاقامہ کا اہتمام و انصرام، ڈسپنسری کا قیام، کوٹ یوسف علی قصبہ کا قیام، پنجک (دیہات)کا قیام، کیرتھر نہری کی تعمیر، پیر پرستی کا قلع قمع، بھنگ کی کاشت پر پابندی، مگسی قبائل پر چھ گز کپڑا برائے کرتہ و شلوار کا اطلاق، لندن سے واپسی پر زرعی اصلاحات کے خیال کا اعلان۔
قبل از لندن روانگی۔…… اہل بلوچستان کے نام الوداعی پیغام۵۲ مارچ ۴۲۳۹۱ء
لندن روانگی۔…………بمقام بمبئی۷۲ مارچ ۴۳۹۱ء
قیام لندن………………۹ ماہ
لندن سے واپسی………… ۱۳ جنوری۵۳۹۱ء
دعا۔……………… خدایا مجھے اتنی استطاعت مرحمت فرما کہ مجھے کبھی بھی بے حسی کی نیند نصیب نہ ہو اور صرف اس مقصد کے لئے جاگتا رہوں تاکہ پوری عمر میرے جاگنے سے قوم اگ اُٹھے۔
سیاسی رفقاء…………میر عبدالعزیز کرد، خان عبدالصمد خان اچکزئی، میر عبدالرحمن بگٹی، میر شہباز خان نوشیروانی، ملک عبدالرحیم خواجہ خیل، محمد حسین عنقاء، پیر بخش نسیم تلوی، ہاشم خان غلزئی، جام نور اللہ عالیات، میر مٹھاخان مری، ملک فیض محمد یوسف زئی، میر علی نواز تالپور والئی خیر پور، میر واحد بخش خان تالپور، والئی ریاست حیدر آباد، ڈاکٹر فیض محمد شاہوانی، غلام رسول قرائی، محمد علی قرائی، ڈیرہ غازی خان۔
بلوچ قبائلی رفقاء۔…………میر حسین بخش مگسی، میر عظیم مگسی، مولانا لطف علی خان، نواب اسد اللہ خان رئیسانی، سردار رسول بخش مینگل، نواب محراب خان بگٹی، میر محمود خان گچکی، سردار رستم خان بلوچ، مولانا محمد عظیم خان سندھ، میر تاج محمد خان ڈومکی، میر سہراب خان مگسی، ماسٹر غلام محمد بلوچ کراچی، سردار میر سہراب خان مگسی، ماسٹر غلام محمد بلوچ کراچی، سردار میر بلوچ خان، میر احمد یار رستم زئی قلات، خان صاحب، سردار آدم خان جیکب آباد، سردار اعظم مزاری، سردار بہرام خان لہڑی۔
برصغیر کے سیاسی قائدین سے روابط۔ ………… مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، مولانا اختر علی خان، مولانا محمد علی جوہر۔
وصیت۔………… اپنے اعمال قلو ب میں تبدیلی پیدا کرو۔ جماعت سوز جمود کو ترک کرو انپا نصب العین بلند معیار پر ذہنوں میں متشکل کردو اپنی اولاد کو علم کی زیور سے آراستہ کرو۔ خاص کر بچیوں کو زیور علیم سے محروم نہ کرو۔ سیدھے راستے پر چلو۔
میری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کا نصف حصہ مساوی طریق پر میرے بھائی، والدہ، بیوی اور منے سیف اللہ پر تقسیم کرو۔ باقی نصف حصہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، عبدالعزیز کرد، محمد امین کھوسہ کے باہمی مشاورت سے کسی اسلامی کام پر خرچ کرنا چاہیے۔
شدید زخمی بوجہ زلزلہ۔…………۰۳ وا۱۳ مئی ۵۳۹۱ء کی درمیانی شب بوقت ۵۴۔۲ بجے
بمقام…………………………انسپکشن بنگلورز میں واقع ڈاک بنگلہ۔ رمزے روڈ عقب بنگلہ ٹہل سنڈیمن سول ہسپتال کوئٹہ
شہادت………… ۱۳ مئی بوقت نماز جمہ
آسودہ خاک………… کاسی قبرستان کوئٹہ
عظیم تعلیمی و فلاحی منصوبے
میر یوسف عزیز اوراس کے مشیران کا رہمہ گیر و سعت نظر لئے سماجی و معاشی تبدیلیاں لانے کے لئے غیر معمولی عظیم تعلیمی منصوبوں اور فلاحی اصلاحات کے ذریعے اپنے زیر کنٹرول علاقہ جھل مگسی کی حدود کے اندر نئے خوشحال پر امن سماج اور قبائلی و روایتی سماج کے بطن سے ایک جدید قوم کی تشکیل کے لئے مصروف کارتھے۔ کیونکہ میریوسف مگسی شعور ی طور پر جانتے تھے کہ ہمارا سماج زیر تسلط ہے جو قبائلی روایتی نوآباد یاتی جبر اور طبقاتی او نچ نیچ کا شکارہے یہ تو نوآباد یاتی جبربین الاقوامی سامراجی تقسیم محنت کا حصہ ہے سامراجی استعماری نظام کے زیر تسلط اور سیاسی و معاشی غلامی کی زنجیروں میں جھکڑہ ہوا ہے۔
ہمارا معاشرتی قبائلی نظام حکومت جہالت اور فرسودہ قبائلی روایوں کے ستونوں پر کھڑاہے۔یہ نہ صرف قومی و حدت کی راہ میں رکاوٹ بلکہ قبائلی نظام کی بندھنوں میں جھکٹرے ہونے کی وجہ سے قومی و جود کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے وقت میں انہوں نے اپنا فرض جان کہ مسائل و مشکلات کے حل کے لئے راہوں کو تلاش کریں۔ اپنے سماجی تضادات سے آنکھیں نہ چرائیں بلکہ علم کی دولت سے منورہوکر سچائی کی روشنی میں اپنے مسائل و مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ایسی راہوں کاتعین کریں جو ہمارے پسے ہوئے عوام کو ناکارہ فرسودہ قبائل سماجی جبر و قید سے آزاد کرکے قومی و حدت میں پرونے کا کام سرانجام دے۔
جب میریوسف عزیز مگسی کی قبیلہ کے سربراہ کی حیثیت سے دستابندی کی گئی تو آپ نے قبیلہ میں جہالت،توہم پرستی دور کرنے اور مہذب اور علم کی دولت سے روشن ذہنوں کی نشوونماکے لئے تعلیمی کی ضرورت کو اہم ترین ضرورت سمجھتے ہوئے تعلیمی مدارس کے قیام کی جانب بھر پر توجہ مرکوز کی۔ کیونکہ آپ علم کی اہمیت اور ضرورت سے بخوبی آگاہ تھے۔
آپ جانتے تھے کہ ہمارے پسماندہ قبائلی اور روایاتی سماج میں جدید علم کے زیور سے آراستہ نسل ہی مستقبل میں سچائی کے معیارپر اپنے فرسود اور مجز و اقدار کو پر کھ کر اور ان کے ارتقا ء پزیر خصلت کو ساتھ لیکر اپنے قبائلی سماجی کے بطن سے قومی و حدت کی تعمیرنو کرے گی اور پسماندہ قبائل کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے اور روشنی کی جانب راغب کرے گی،اپنے وطن کے سیم زدہ مٹی میں یوسفی ارمانوں کے کھلیانوں سے گل لالہ کے شگو فے جہنم دے گی اور اپنے مفلوک الحال عوام کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر اور امیدوں کا کزن بن کر ثمر بارتنا دو درخت کے طور پر ابھریگی۔
جامعہ یوسفیہ کی تعمیر
میر یوسف عزیزپہلے بلوچ نواب تھے جنہوں نے قبائلی نظام میں دراڑیں ڈالنے کے لئے جبری تعلیم کانظام رائج کیا۔ انہوں نے دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی علوم اور سائنس کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تعلیم مقصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی علاقہ میں ایک عظیم تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا انہوں نے۵۱ اکتوبر ۳۳۹۱ء کوجھل مگسی میں جامعہ یوسفیہ کا سنگ بنیاد رکھا وسیع وعریض رقبے پر محیط جامعہ یوسفیہ بقول پر وفیسر محمود علی شاہ جوانہوں نے ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ یوسفیہ اب بھی رقبے کے لحاظ سے بلوچستان یونیورسٹی سے بڑا ہے اور اس کے ہاسٹلوں کی تعداد بلوچستان یونیورسٹی سے زیادہ ہیں۔ جو اب بھی یونیورسٹی بننے کا اہل ہے۔ (۵)اور کوٹ یوسف علی،،اور پنجک،، پرائمری سکول تعمیرکئے تاکہ تعلیم کے زیور سے آراستہ نسل مستقبل میں حقیقت پسندی سے قومی وحدت کی تعمیرنو کے لئے آگے بڑھے اور اپنے قبیلے کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے اور روشنی کی طرف راغب کرنے کے لئے کا م کرے۔
ہاسٹل کی تعمیر اور جبری نظام تعلیم
میر یوسف عزیز ونا دار طلباء کے لئے رہائش کی غرض ہاسٹل بھی تعمیر کروائے جہاں قیام و خوراک کا انتظام جامعہ کی طرف سے تھا پانچ سے نوسال کی عمر تک کے بچوں کے لئے جبری تعلیم کا حکم جاری کیا اور اپنی زرعی آمدنی کادسواں حصہ تعلیم پرخرچ کرنے کا فیصلہ کیا علاقے کی تعلیم کے انتظام کے لئے ایک علیحدہ افسر مقرر ہوا جسے ناظم جامعہ یوسفیہ کہتے تھے۔ میر یوسف عزیز جوعلم کے دلداوہ اور صاحب بصیرت انسان تھے۔ وہ وسیع ذہن عوامی فکر اور لا تعداد صلاحیتوں کے مالک تھے دور اندیش اور معاملہ فہم نوجوان تھے۔ خداکے فضل وکرم سے مگسی کو ایک ایسانوجوان نواب ملاجواجتماعی قبائلی مفاداست کو انفرادی مفادات پر مقدم سمجھتا تھا جواپنے ذاتی اخراجات کو اجتماعی قبائلی مفادات کو انفرادی مفادات پر مقدم سمجھتاتھا جواپنی ذاتی اخرجات کو اجتماعی قبائلی فلاح و بہود کے تصرف میں لانا تھا۔
جریدہ،،ینگ بلوچستان،،جامعہ یوسیفہ اور جھل کے شاندار مستقبل کے بارے میں یوں تبصرہ کرتاہے،، عرب کے زمانہ جاہلیت کے یاد تازہ کرنے والا جھل نہ صرف جہل بلکہ حقیقی معنوں میں جہل کا مرکب تھا،، یہاں کے باشندے شراب بھنگ اور افیوں اور چرس جیسی نجس و ناپاک منشیات کے سحر میں مبتلاتھے۔ ان منشیات پرپابندی کے قانون نے ان کو تحت السریٰ تک پہنچنے سے پہلے جگادیا۔ علاقے کا بچہ بچہ اپنی کھوئی ہوئی اور زنگ آلودہ قوتوں کو صیقل کرنے کیلئے میدان میں عمل میں کود پڑا بھلا قدرت کا اس سے بڑھ کر ان پر اورکیا احسان ہوسکتاتھا کہ ان کو نواب محمد یوسف علی خان جیسے مرد مجاہدکی قیادت نصیب ہوئی انہوں نے ان تمام خلاف شرح رسموں کو جنکے باعث قوم کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی تھیں۔ اس احتیاط کے ساتھ پیوند خاک کردیاہے۔ کہ وہ قیامت تک سرنہ اٹھاسکیں آپ (نواب یوسف علی خان) نے اپنی قوم کو مہذب اور شائستہ بنانے کیلئے نصف لاکھ کے ذاتی مصروف جامعہ کی بنیاد رکھی جہاں قوم کے بچے دینی اوردنیاوی تعلیم کے علاوہ علوم جدید سے بھی خاطر خواہ طور پر بہر مند ہورہے ہیں،،
میریوسف عزیز کے دور میں جامعہ یوسفیہ اور دیگر قائم کئے گے پرائمری سکولوں کی بنیادیں مستحکم بنیادیوں پر استوار کی گی تھیں،، اچھے اور قابل اساتذہ باہر سے منگوائے گئے ماہر تعلیم مولانا عبدالکریم کوناظم تعلیمات،،جھل،،مقرر کیا گیاجس نے ابتدائی مدارس کانصاب تعلیم اور دستورالعمل مرتب کرکے چھاپاجامعہ یوسفیہ کے نصاب کی ترتیب کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے مجوزہ نصاب تعلیم کوناخن تدبیر کی حیثیت سے دیکرترتیب دیدگئی۔
میریوسف عزیز کے پھیلانے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہے عوام میں علم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے متحرک رہے اپنے قبائل کے پاس خود جاتے، انہیں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کے بارے میں آگاہ کرتے تھے۔ اسی طرح اپنے علاقے میں قائم کئے گئے تعلیمی اداروں سے بھی برابر رابطہ میں رہتے وہ بچوں میں شوق بڑھانے کے لئے جامعہ میں خود جاتے بچوں سے باتیں کرتے تعلیمی حالت کا جائزہ لیتے اور،،رائے بک،، میں عملی ترقی اورعام معیارکی بلندی کے لئے تجاویز مرتب کرتے علاقے میں تعلیم عامہ کے ساتھ ساتھ بہت سی اصلاحات علاقے اورعوامی فلاح وبہود کے لئے نافذ کیں، جودرج ذیل ہیں
کیرتھر نہر
دریائے سندھ سے علاقہ مگسی کو سیراب کرنے کیلئے کیر تھر نہر کھدوائی اس کی وجہ سے علاقے میں زراعت میں میدان میں انقلاب برپا ہواکیرتھر نہر سے مفلوک الحال کسانوں کو اپنی بنجر زمینیں زرخیز کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کا عظیم موقع میسر آیا
ڈسپنسری
عوامی علاج و معالجہ کی غرض سے ڈسپنسر یاں قائم کیں۔ جہاں میڈیکل سٹاف کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جن کی تنخواہوں کی ادائیگیاں یوسف عزیز کی جائیداد سے ہوتی تھی علاج و معالجہ مفت ہوتاتھا۔
کوٹ یوسف علی
ایک چھوٹے سے شہرکو ٹ یوسف علی کی بنیاد ڈالی جس کی گلیاں کشاوہ مگر ترتیب سے تھے جہاں پرائمری سکول بھی تعمیر کیا۔ اس کے علاوہ کئی دیہات تعمیر کروائے۔
دارالاقامہ کابندوبست
غریبوں کے لئے دارالاقامہ کابندوبست کیایہ تمام اصلاحات ایک مختصر عرصے میں پایہ تکمیل تک پہنچائی گئیں۔
ان تما م فلاحی کاموں کے اخراجات یوسف عزیز اپنے ہی جیب سے اداکرتے تھے۔