26مئی 1987ء وہ دردناک اور سانحہ کا دن ہے جس دن ملی رہبر تاریخ ساز قومی سیاست دان چیف آف سروان نواب غوث بخش رئیسانی کو شہید کیا گیا جس نے ہمیشہ مظلوم انسانوں کی آذادی ترقی اور خوشحالی چاہی۔ آج بلندکردار انقلابی رہنما اور با اصول سیاست دان فخرے بلوچستان شہید نواب غوث بخش رئیسانی کی 32ویں برسی پوری دنیا اور خصوصاََ بلوچستان میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منانے کا اہتمام کیا گیا جس کا بنیادی مقصد اس عظیم مجاہد اور عوام دوست رہنما کی تاریخی رول اور قومی خدمات سے اپنے غیور بلوچستانیوں کو آگاہ کرنا ہے۔
فخربلوچستان نواب غوث بخش رئیسانی 1924ء میں بلو چستان کے گاؤں کانک میں نواب سر اسد اللہ خان رئیسانی مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعدوہ دنیا وی تعلیم کیلئے ڈیرہ ٹاؤن کے علاوہ کراچی کے گرائمر سکول اور چیفس کالج میں بھی زیر تعلیم رہے نواب غوث بخش رئیسانی کا شمار پاکستان کے ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے قوم اورملک کی بے لوث خدمت کی۔ نواب غوث بخش رئیسانی اصول کا پابند قوت فیصلے کے مالک زندگی کے مقصد و ضرورت اور علاقے کے مسائل سے باخبر باوقار اور پر اعتماد شخصیت کے مالک تھے۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے بلوچستان میں تعلیم اور زراعت پر خصوصی توجہ دی۔ اور دونو ں شعبوں میں آپ نے بے شمار خدمات سر انجام دیئے۔
انہوں نے بلوچستان میں علم، روشنی، اخوت، اتحاد، محبت اور امن کو فروغ دیا۔ نواب صاحب نے میر گڑھ پر خصوصی توجہ دی اوروہاں سے آثار قدیمہ برآمد کرکے اسے ساری دنیا میں متعارف کرایا۔ وہاں پر بہت بڑے ثقافتی ورثہ جمع کیاجس کی بدولت بلوچستان کو ساری دنیا میں شہرت ملی کیونکہ 1953میں فرکوسن سکول سے زراعت کے شعبے میں اعلیٰ تکنیکی مہارت حاصل کی تھی اور مٹھڑی میں ماڈرن میر گڑھ فارم بنایا۔جو بلوچستان میں ایک جدید زرعی فارم تھا۔ نواب غوث بخش رئیسانی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1946ء میں فوج کمیشن حاصل کیں۔ جبکہ 1949ء میں بحییثت میجر کمانڈر لیویز اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔
والد بزرگ وار نواب سر اسد اللہ خان رئیسانی کے انتقال کے بعد انہیں رئیسانی قبیلے کا سربراہ بنایا گیا اس کیلئے انھیں نوکری چھوڑنی پڑھی اور عملی سیاست میں قدم رکھنا پڑا۔ شہید نواب غوث بخش رئیسانی 1956ء میں صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان کے رکن رہے ضلع قلات سے اس کے علاوہ 1970میں کچی ون سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1971میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔نوا ب غوث بخش رئیسانی 28دسمبر1971 تا 2اپریل1972بلوچستان کے پہلے سول گورنر رہے۔اس کے بعد 7مئی 1972سے لے کر13فروری 1974تک وفاقی وزیر خوراک و زراعت بھی رہے۔نواب صاحب پیپلز پارٹی کے صدر مقرر ہوئے تو صوبائی کابینہ میں سینئر وزیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
پاکستان میں 1977ء کو قائد عوام ذوالفقار علی بٹھو شہید کی حکومت کو جب ضیاء الحق نے ختم کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو فوجی آمروں نے نواب غوث بخش رئیسانی کو بھی نظر بند کیا نواب غوث بخش رئیسانی نے جمہوریت کی بالا دستی بلوچستان کے عوام کی بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے فوجی ڈکٹیٹر شپ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
نواب غوث بخش رئیسانی کو 26مئی 1987کو جب وہ کوئٹہ جا رہے تھے تو ڈھاڈر سے 3میل دور درہ بولان کے قریب پانچ محافظوں سمیت 27رمضان مبارک کے دن شہید کردیئے گئے گزشتہ روز ان کی 32 ویں برسی پورے بلوچستان میں عقیدت و احترام سے منائی گئی۔آج بھی ان کے فرزند چیف آف سروان نواب اسلم خان رئیسانی اورنوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی اپنے بزرگوں سر اسد اللہ خان رئیسانی اور نواب غوث بخش رئیسانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بلوچستان کے عوام کی بلا رنگ و نسل بے لوث خدمت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہوئے عوام کے مسائل کے حل کیلئے دن رات کوشا ں ہیں۔