جام کمال نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریکوڈک کا کیس عالمی سطح پر چل رہا ہے قوی امکان ہے کہ ہم پر اربوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ یہ رقم صوبے نے ادا کرنا ہے اور اس کا سارا بوجھ حکومتِ بلوچستان پر آئے گا۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بلوچستان کے معدنی وسائل سے ملنے والا معاشی فائدہ وفاق کے حصے میں چلا جائے جبکہ نقصان کا ازالہ صرف بلوچستان ہی کرتا رہے۔
یہ انصاف کا کونسامعیار ہے۔ اگر وفاق کے سامنے سوال رکھا جائے کہ سیدھا سیدھا بتا دیں کہ اس نقصان کا ازالہ بلوچستان کس طرح برداشت کرے۔ تو آپ کے سوال کو گھما پھرا کر معیشت کی ایسی تاویلیں پیش کی جاتی ہیں کہ عام آدمی تو اپنی جگہ معیشت کی اکائیوں سے واقف شخص بھی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ یعنی بلوچستان کو جو رقم وفاق سے ملنا ہے اسی رقم سے اسی کا ازالہ ہوگا یا تو یوں کہیے کہ بلوچستان مقروض ہو جائے۔ جام کمال صاحب کی باتیں سنتے ہوئے لگتا ہے کہ وہ بلوچستان کی نہیں وفاق کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ حالیہ دنوں آئی ایم ایف معاہدہ اور پیسے کی گراوٹ پر سوشل میڈیا پر خوب بحث چل رہی تھی مگر بلوچستان سے ایک قسم کی لاتعلقی پائی جا رہی تھی۔ آخر اتنی خاموشی کیوں؟ یہی سوال میں نے سینئر صحافی اور روزنامہ جنگ کے رپورٹر عبدالخالق رند سے کیا تو ان کا کہنا تھا ”بلوچستان کے عوام کی عدم دلچسپی اور بیگانگی کی بڑی وجہ مالی معاملات اور فیصلہ سازی میں ان کی عدم شرکت ہے۔
جام یوسف کے دور میں این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کی نمائندگی سندھ کے ایک سیکرٹری نے کی، ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں قرعہ فال قیصر بنگالی کے نام نکلا جبکہ بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا چیئرمین بلوچستان سے باہر کا بندہ ہے۔ صرف چند فنانس آفیسر ہیں جن کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے کہ آپ نے رقم کس طرح تقسیم کرنا ہے ریونیو کس طرح جنریٹ کرنا ہے اس سے متعلق بلوچستان کو آپ جتنا لاعلم رکھیں گے لوگ اتنے ہی بیگانے ہوں گے اور اس کا اثر بلوچستان والوں پہ زیادہ پڑے گا۔
انڈسٹری آپ کے پاس ہے ہی نہیں، آپ کی مصنوعات باہر سے آتی ہیں۔ جبکہ گندم چینی اور دیگر اشیاء خوردونوش سندھ اور پنجاب سے درآمد کرکے گراں قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں تو اس کا زیادہ اثر بلوچستان والوں پہ ہی پڑے گا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان کو وفاق سے بجٹ مئی کے مہینے میں موصول ہوتی ہے۔ جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ نہیں پاتے۔
اگر بات خزانے کی کی جائے تو موجودہ حکومت اپنی ایک سالہ مدت پورا کرتے کرتے وزیر خزانہ تبدیل کر چکی ہے۔ وزارت خزانہ کا قلمدان عارف محمد حسنی کے پاس تھا۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ خزانہ ان سے سنبھالا نہیں جا رہا ہے سو ان کی جگہ خزانے کا قلمدان ظہور بلیدی کو سونپ دیا گیا ہے۔ اب خدا جانے ظہور بلیدی مالی معاملات کو سمجھتے ہیں یا نہیں، فنڈز لیپس ہونے سے بچا سکتے ہیں یا نہیں۔
بہر کیف ایک خوف کی فضا اپنی جگہ قائم ہے کہ کہیں رقم خرچ کرنے کی صورت میں نیب کی پکڑ میں نہ آجائیں جس طرح ڈاکٹر مالک دور حکومت میں مشیرِ خزانہ خالد لانگو آئے تھے۔دوسری جانب ڈویلپمنٹ سیکٹر پر خزانہ خرچ نہ کرنے اور پی ایس ڈی پی کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں گہری تشویش کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں کہ حکومت یہ بجٹ لیپس کرنا چاہتی ہے۔ اور اپوزیشن نے اس حوالے سے شٹرڈاؤن ہڑتال کی تھی۔ جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان بارہا کہہ چکے ہیں کہ سابق دور حکومت کی طرح اس بار سرکاری خزانہ عوام پر ہی خرچ کیا جائے گا۔
جس وقت اپوزیشن جماعتیں کوئٹہ میں احتجاج میں مصروف تھیں اسی روز وزیراعلیٰ بلوچستان وزیراعظم کے ساتھ ایک میٹنگ میں مصروف تھے اور ان کی شیئر کی گئی تصویروں کو یہ عنوان دے کر شیئر کیا جا رہا تھا کہ بلوچستان کی اہم اسکیموں کی منظوری وزیراعظم دے چکے ہیں۔ یعنی عوامی اسکیمیں بناتے اور پیسے خرچ کرتے ہوئے موجودہ حکومت بہت احتیاط سے کام لے رہی ہے مگر ان کا یہ احتیاط کہیں عوام کے لیے مسائل کھڑی نہ کرے۔
تمام تر صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو معیشت کے حوالے سے ایک پریشان کن صورتحال موجود ہے۔ گراؤنڈ پر کتنا کام ہو رہا ہے کتنا نہیں ہو رہا۔ اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آرہی ہے اور نہ ہی حکومت عوام کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ ٹھہرانے کو تیار ہے۔ بلوچستان کے مالی معاملات ہوں یا سیاسی، سماجی معاملات، مین اسٹریم میڈیا میں مکمل طور پر بلیک آؤٹ ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے سب اچھا کا راگ الاپا جا رہا ہے مگر حقیقی تصویر سامنے لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ کہاں کہاں ڈویلپمنٹ پہ کام ہوا ہے اور اس سے مقامی آبادی کس قدر استفادہ کر رہی ہے اس کا خاکہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور یہ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ آپ جو کام کرتے ہیں آپ ہمیشہ اس کے نتائج دیکھتے ہیں۔ جب نتائج ہی سامنے نہ آئیں اور غیرجانبدارانہ تجزیہ یا تحقیق سامنے نہ آئے اس وقت تک حکومتی اعلانات کو تصوراتی ہی سمجھا جائے گا۔
اب ہم آتے ہیں ان سیکٹرز کی طرف جن پر کام کرکے نہ صرف بلوچستان کا معاشی نظام مستحکم کیا جا سکتا ہے بلکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور غربت کی شرح کم کی جا سکتی ہے۔بلوچستان کے شاہراہوں پر کام کرکے وہاں کی حالت بدلی جا سکتی ہے۔ مثال دیتا ہوں سندھ یا پنجاب کے ان ایریاز کی جہاں ٹرانسپورٹیشن کا نظام ہے شاہراہیں اورریلوے ٹریک بنی ہوئی ہیں وہاں آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ معاشی طور پر قدرے مستحکم ہیں۔ آبادی کا معاشی نظام سڑکوں کی وجہ سے بہتر ہے۔ اول یہ کہ شاہراہوں کی وجہ سے ایک علاقہ دوسرے علاقے سے منسلک ہے۔
ٹرانسپورٹیشن کی دستیابی کی وجہ سے وہاں کی فصلیں آسان کرائے پرمارکیٹ تک پہنچ جاتی ہیں۔ لوگوں کی آمد و رفت سے وہاں چھوٹے پیمانے کا کاروبار بھی ہے۔ ڈھابے،کیبن، پٹرول پمپ، ہوٹلز اور دکانیں ہیں ذریعہ معاش تک ان کا حصول آسان ہے۔ یوریا انہیں سستے داموں دستیاب ہے جبکہ پانی کے حصول کے لیے نہری نظام موجود ہے جبکہ بلوچستان میں شاہراہوں کا خاص سیٹ اپ موجود نہیں۔ کہا یہی جا رہا تھا کہ سی پیک منصوبے کے تحت مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کیا جائے گا۔ اس روٹ سے بلوچستان کی زیادہ تر آبادی کو مستفید ہونا تھا۔ مگر بعد میں فوکس مشرقی روٹ پر کیا گیا۔ مغربی روٹ کا معاملہ دب گیا۔ ایک امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ جل کر بجھ گئی۔
بلوچستان کے اگر مین شاہراہوں کی بات کی جائے تو کہیں بھی آپ کو دو رویہ شاہراہیں نہیں ملیں گی۔جس کی وجہ سے آئے روز حادثات جنم لیتے ہیں جس سے لوگ جان سے جاتے ہیں۔ اب یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کم از کم کراچی کوئٹہ شاہراہ کو دو رویہ کیا جاتا۔ کراچی کوئٹہ روٹ مقتدر حلقوں کی ضرورت نہیں ہوتی تو شاید ہی اس کو بنا نے کی نوبت آتی۔ سڑک کراچی سے ہوتا ہوا چمن تک جاتی ہے۔ ایک روٹ سوراب بسیمہ، نال، پنجگور، کیچ سے ہوتا ہوا گوادر تک چلا جاتا ہے۔
ایک روٹ اوتھل سے نکل کر پسنی، اورماڑہ، گوادر تک جاتا ہے مشرف دور میں بننے والی یہ سڑک گوادر تک رسائی کے لیے بنائی گئی تھی نہ کہ عام لوگوں کی آمد ورفت کے لیے۔ اب آواران ان کی ضرورت نہیں تھی تو انہوں نے آواران کا زمینی رابطہ دیگر اضلاع سے منقطع کر دیا۔ جہاں کسی زمانے میں لوگوں کا ذریعہ معاش اسی سڑک سے وابستہ تھاسڑک کے بند ہوتے ہی وہاں کے ذریعہ معاش پر کاری وار ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹلز، کیبن، پنکچر کی دوکانیں بند ہوگئیں اور آواران کا ناطہ کیچ سے کٹ گیا۔
اب بھی اگر کوشش کی جائے تو نہ صرف آواران کو کیچ سے ملایا جا سکتا ہے بلکہ آواران ٹو پنجگور اور آواران ٹو خضدار شاہراہ کی تعمیر میں دلچسپی لے کر آواران کو سینٹرل علاقہ بنایا جا سکتا ہے۔ چھ اضلاع کے ساتھ سرحدیں ملنے کے باوجود آج تک آواران والوں کو یہ نہیں معلوم کہ واشک کیسا علاقہ ہے۔ (جاری ہے)