|

وقتِ اشاعت :   June 7 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ ملکی آئین کے تحت لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

صوبے میں اجتماعی قومی نقصان کا ازالہ اتحاد سے کیا جاسکتا ہے، تاریخ میں چاپلوس قومی مجرم کے طور پرگردانے جائیں گے۔ ملک میں آئین کی بالادستی کو قائم رکھنے کیلئے لاپتہ افراد کے مسئلہ کا آئینی قانونی اخلاقی اور رواج کے مطابق راستہ نکالا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عید الفطر کے پہلے روز کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم کیمپ کے دورے کے موقع پروہاں موجود لاپتہ افراد کے لواحقین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی نے لاپتہ افراد کے لواحقین کواپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے طویل جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی اس جدوجہد میں ایک دن ضرور کامیاب ہونگے۔انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین ریاست سے کوئی غیر آئینی مطالبہ نہیں کررہے آئین کے دائر ہ کار میں رہتے ہوئے مطالبہ ہے کہ ان لاپتہ ہونے والے افراد کو عدالتوں میں پیش کرے اگر ان سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو ان پر کیسز چلائے جائیں تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ مجرم کون ہے مگر یہاں ایک مشکوک عمل کا سہارا لیکر آج تک لاپتہ ہونے والے افراد میں سے کسی ایک پر بھی فرد جرم عائد کرکے اسے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں خود اس آئینی اصلاحاتی کمیٹی کا رکن تھا جس نے آئین میں ترمیم کرکے پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا اور اس آئین میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو عوام کا آئینی حق قرار دیا گیا ہے مگر افسوس کہ جس آئین پر مجھ سمیت عوام کے منتخب نمائندں کے دستخط ہیں اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین ہزار چھ سو گیارہ دنوں سے بلوچستان کی باپردہ خواتین ہماری مائیں، بہنیں اور بچے اپنے پیاروں کے انتظار میں احتجاج پر بیٹھے ہیں۔

میر ا ان نام نہاد معززین اور معتبرین سے سوال ہے جو ریاستی تہواروں پر کسی کو خوش کرکے عہدے اور مراعات حاصل کرنے کیلئے ریلیاں نکالتے ہیں کیا ان کی نظریں فٹ پاتھ پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے ان لوگوں پر نہیں پڑی اگر پڑی ہے تو انہیں اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوکر خود سے یہ سوال کرنا چائیے کہ یہاں بیٹھی مائیں اور بہنیں بلوچی رسم ورواج کے تحت اس بات کی حق دار نہیں کہ ان کے سروں پر ہاتھ رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ محقق جب آج کی تاریخ لکھے گا تو یقینا ایسے چاپلوس لوگوں کو تاریخ کی عدالت میں قومی مجرم کے طور پر گردانا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ 25 سے 30 سال قبل جن طلباء تنظیموں کے کھڑے ہونے سے زمین لرز اٹھی تھی اور آپس کی تفریق کے باعث آج خود لرز رہی ہیں طلباء سیاست میں اس تقسیم کا کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر ضرور فائد اٹھایا ہوگا مگر اس سے صوبے کو اجتماعی قومی نقصان پہنچاہے اور اس نقصان کا ازالہ اتحاد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

نواجوان، محنت کش،سیاسی کارکن موجودہ حالات میں بھی آپس میں اتحاد واتقاق پیدا نہیں کریں گے تو تاریخ میں ان کا کردار بھی میر جعفر اور میر صادق کے طور پر جانا جائیگا۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ ماضی میں ہم سب سے کہیں نہ کہیں غلطیاں سرزد ہوئی ہونگی ان غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلئے ذاتی مفاد کیلئے اپنا وقت گزارنے والے معتبرین،طلباء، وکلاء تنظیموں سمیت شعور رکھنے والے افراد کو اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوکر اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا چائیے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے اطراف میں موجودہ بحرانوں سے آئندہ آنیوالے وقتوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کرسکتا ہے میراپارلیمنٹ میں موجود لوگوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس آئین کی پاسداری کرتے ہوئے جس کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے ملک میں اس کی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے لاپتہ افراد کے مسئلہ کا آئینی،قانونی،اخلاقی اور رواج کے مطابق راستہ تلاش کریں۔

انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل میرے کلاس فیلومہر گل مری کی والدہ اس کیمپ میں اپنے بیٹے کی بازیابی کیلئے یہاں موجود تھی مگر آج مہر گل مری کی تصویر اس کیمپ میں موجود ہے مگر اس کی ماں اپنے بیٹے کی واپسی کا راستہ دیکھتے دیکھتے دنیا سے رخصت ہوچکی ہے جو ایک بہت بڑا ظلم اور المیہ ہے کہ اس کیمپ میں موجود اس ماں کو بھی انصاف نہیں ملا جو کئی سال بیٹے کی واپسی کا انتظار کرتے فوت ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اپنے ننگ وناموس کیلئے متشرکہ جدوجہد کی راہ اپناتے ہوئے بحران زدہ سماج کو ان بحرانوں سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔