جب آپ فکشن پڑھتے ہیں تو اس میں زندگی کا احاطہ تصورات کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ مختلف کرداروں کو کہانیوں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ کہانی کا خاکہ کیسا ہو، اس میں ٹوسٹ کیا لانی ہے،کون کون سے کردار شامل کرنے ہیں کہانی کو اختتامیہ کیا دینا ہے؟یہ سب کہانی کار پر منحصر ہے۔۔۔کہانی ایسی کہ اختتام تک قاری کو اپنی گرفت سے آزاد نہ ہونے دے۔ مختلف تصویروں کی صورت میں دماغ پر محو پرواز ہو کر کہانی کو بار بار دہراتے رہیں۔ دھندلاتی تصویریں واقعاتی صورت میں نظر کے سامنے پھرتی رہیں۔ کچھ کہانیاں ایسی کہ عام قاری ان کی مفہوم تک سمجھ نہیں پائے اور دنگ ہو کر رہ جائے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔
مگر حقیقت کی دنیا میں جو کہانیاں ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں تو ہم جستجو میں لگتے ہیں وجوہات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہانی مکمل نہ سہی مگر کہانی کا لب و لباب ضرور سمجھ میں آجاتا ہے۔ یہ ایسی کہانیاں جو فکشن کی دنیا سے آزاد حقیقی ہوتی ہیں۔ یہ حقیقی کہانیاں ایک نہیں دو نہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ہر کہانی پر فلم بنائی جا سکتی ہے اور ناول لکھی جا سکتی ہے۔ مگر بلوچستان کی بدقسمتی ہی یہی رہی ہے کہ نہ ہی اس کی کہانیاں سامنے آتی ہیں اور نہ ہی ان کہانیوں کو کہانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کہانیوں کو گڑ مڑ کر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ کہانیوں کی شناخت ہی مسخ ہوجائے۔ اب بھلا ایسی کہانیوں کو پھر کیا نام دیا جائے۔
عید کا موقع ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ عید کے لمحات اپنوں کے درمیان گزاروں۔ ان کے درمیان جن کے ساتھ بچپن گزری تھی۔ مگر عید کی خوشیاں عموماً تلخ لمحوں میں بدل جاتی ہیں جب چاروں طرف تکلیف کی بہتی ندیاں دیکھتا ہوں تو دل بوجھل ہوجاتا ہے۔کئی چہرے جن کے ساتھ بچپن کی یادیں ہیں۔ وہ بچپن جو ہم نے کھلونوں سے کھیلتے گزاری تھی۔ اب ان کے عکس غموں کی پرچھائیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
ان میں ایک عکس نسیمہ (فرضی نام) کی ہے۔ گاؤں تھا خوشی کے لمحات تھے چاردیواری سے آزاد گھر ہوا کرتے تھے۔ خونی رشتے ناطوں سے آزاد احساسات کے ہوا کرتے تھے۔ ایک ساتھ کھیلتے کودتے جب جوان ہوئے تو راہیں الگ ہوئیں، ہم شہری بابو کہلائے نسیمہ اور اس جیسی دیگر لڑکے لڑکیاں فقط دو جماعت ہی پاس کر پائیں۔ یہاں کم عمری میں شادی کا رجحان زیادہ ہے۔ سو نسیمہ کی شادی بھی حسبِ معمول کم عمری میں ہی کر دی گئی۔گاؤں پہنچنے پر پتہ چلا کہ نسیمہ کو طلاق ہوگئی ہے۔ تین بچوں کی ماں روتی دھوتی واپس والدین کے ہاں چلی آئی۔ بس کیا ہے کہ سوسائٹی کو ایک عنوان چاہیے اب کی بار یہ عنوان نسیمہ کی طلاق بن گئی۔
نسیمہ نہ ہی پڑھی لکھی اور نہ ہی بچا کچا کوئی سرمایہ۔ والدین جولڑکی کو بیاہ کر اپنے آپ کو غموں سے آزاد کر چکے تھے۔ اب ان کے کندھوں پر تین اور بچوں کی ذمہ داری آگئی ہے۔ علاقے میں نہ ہی کوئی فلاحی ادارہ جو نسیمہ یا اس جیسی دیگر خواتین کے معاشی تحفظ کا ضامن بن سکے اور انہیں ہنرمند بنا ئے اور معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کی آزادی دے سکے۔
ایک طرف معاشرتی قدغنیں تو دوسری جانب ریاستی جبر کہ ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا نظام موجود ہی نہیں۔ جن کے پڑھنے کے دن ہوتے ہیں ان کی شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ باقی کی زندگی بچوں کی پرورش اور خاوند کی خدمت میں صرف ہوتی ہے۔ ناخواندگی اور معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے فیصلہ سازی میں ان کی شرکت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ بچے جنتے جنتے اور خدمت کرتے کرتے یہ خواتین اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھ پاتیں۔ 30سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بوڑھی عورت بن جاتی ہیں۔مرد دوسری شادیاں کرتے ہیں یا تو پہلی بیوی کو طلاق دے جاتی ہے یا گھر کی باندی قرار بنا دی جاتی ہے۔
سوسائٹی میں یہ اکیلی نسیمہ کی کہانی نہیں ہے اور بھی نسیمہ ہیں جو زندگی کے فیصلوں میں خودمختار نہیں۔ ان کی زندگی کے فیصلے پہلے والدین کرتے ہیں شادی کے بعد ان کے شوہر۔ طلاق کے بعد کا معاملہ شرعی طور پر ملاؤں، قبائلی طور پر میر معتبرین، سرداروں، نوابوں کے حصے میں چلا جاتاہے۔ پھر مجال ہے کہ کوئی ان کے فیصلے مسترد کرے۔ ٹھہرے جو وقت کے بادشاہ۔ ان کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کی جرات کوئی نہیں کرتا۔ اور خواتین جو گنگ زبان ٹھہرے ان کی تو کوئی سنتا بھی نہیں۔ انہی فیصلوں کے بل بوتے پر ان کی راج شاہی چلتی ہے۔
دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے نہ ہی کوئی پلیٹ فارم موجود ہے جہاں وہ اپنی آواز اٹھا سکیں اور نہ ہی انٹرنیٹ تک رسائی جہاں وہ ان موضوعات پر بات کر سکیں۔ نہ ہی خواتین کی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کی رسائی جو ایسے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں۔نہ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی رسائی ہے جو ان واقعات کو رپورٹ کر سکیں اور نہ ہی ان قوانین تک رسائی جو طلاق کے بعد ایک عورت کو جینے کی آزادی دے سکیں اور نہ ہی کوئی ایسا تعلیمی نظام جو انہیں عورت کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کر سکے۔ جو بھی ہوتا ہے اسے قسمت کا کھیل قرار دے کر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
اب اگر دیہی خواتین کی کنٹری بیوشن کو دیکھا جائے۔ دیکھ کر آپ کو یقین آتا ہے کہ نظام کا بیڑا کس طرح انہوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ گھر کے تمام کام کاج کرتی ہیں۔ بچوں کو پالتی پھوستی ہیں۔ صبح کے اجالے سے لے کر رات سونے تک یہ ذرا بھر بھی نہیں بیٹھتیں۔ کھانا پکاتی ہیں۔ برتن اور کپڑے دھوتی ہیں۔ بکریاں پالتی ہیں صفائی کرتی ہیں۔ بسترے لگاتی ہیں۔ دور دور سے پانی سروں پر لاد کر لے آتی ہیں۔ گھر میں کوئی بیمار ہو تو تیمارداری کا نظام یہی سنبھالتی ہیں۔ مہینے مہینے بھر گھروں کے اندر ہی گزارتی ہیں بیرونی دنیا کی تفریح سے بالکل لاتعلق ہو کر گھر کے کام میں گزارتی ہیں۔ مگر اجرت میں یہ کچھ نہیں مانگتیں بس گھر والوں کی خوشیاں چاہتی ہیں۔ مگر جب نوبت طلاق پر آجائے تو یہی خاتون خالی ہاتھ گھر واپس آجاتی ہے۔ پھر عمر بھر کا روگ لے کر گزار دیتی ہیں۔
شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں طلاق کی شرح بھی زیادہ ہے۔ کئی وجوہات ہیں مگر نہ ہی موضوع پر گفتگو کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے وجوہات پر۔ اور نہ ہی اس معاملے پر تحقیق کی جاتی ہے سارا معاملہ عورت کے کھاتے میں ڈال کر مرد کو بری الزمہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ فیصلہ سازی میں ملا سے لے کر سردار نواب تک سب کے سب مرد ہی ہوتے ہیں۔ ایک اور بڑی شرح بیواؤں کی ہے۔ بلوچستان میں جنگ و جدل کی فضا نے ہزاروں سہاگ اجاڑ دئیے۔ حکومت کے پاس ایسی پالیسی ہے ہی نہیں جو بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات اٹھائے انہیں جینے کا جواز فراہم کرے۔
یہاں کی خواتین گھریلو کام کاج کے ساتھ ساتھ دستکاری اور مزری کے آئٹم تخلیق کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ مگر دستکاری اور مزری کے آئٹم کو مارکیٹ تک رسائی میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ اب اگر حکومت ان خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے دستکاری سینٹر قائم کرے۔ ہنرکے ادارے قائم کرے،مارکیٹ تک انہیں رسائی فراہم کرے اور ان کی تعلیم پر توجہ دے ان کی زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
جاتے جاتے آپ سب سے ایک گزارش کہ جس طرح لڑکوں کی تعلیم ضروری سمجھتے ہیں لڑکیوں کی تعلیم کو اس سے زیادہ اہمیت دیں۔ انہیں تعلیم دلوائیں۔ انہیں معاشی طور پر مضبوط بنائیں۔ کم عمری کی شادی کی روایت کو ختم کریں۔ تاکہ کل آپ کو بڑھاپے میں اپنی طلاق یافتہ بیٹیوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔