بے نسلے لوگ! یہ جملہ ہم کئی بار اپنی روز مرہ کی زندگی میں سنتے ہیں اور اس کی زد میں اکثر وہ لوگ آتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا تعلق یا زندگی کا تجربہ زیادہ خوشگوار نہیں ہوتا، بعض اوقات سننے اور دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہم اپنے خونی رشتوں کے بارے میں بھی جانے انجانے میں ایسا بول جاتے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ مجھے سوشل میڈیا پر کسی دوست کا پوسٹ کیا گیا ایک جملہ پڑھنے کو ملا (انگریز کتے بھی نسلی رکھتے ہیں) اس پوسٹ کے حق میں درجنوں کمنٹس تحریر تھے ہر شخص نے اپنی سوچ کے مطابق اپنا تجربہ اور فلسفہ لکھ ڈالا۔ میرا بھی دل اپنی رائے دینے کے لیے مچل گیا کہ سچ ہے اعلیٰ نسل اعلیٰ معیار کی ضمانت ہے یہ بھلا کیسے ممکن ہو کہ انگریز کچھ بولے اور وہ بات دل کو نہ لگے، ہم پاکستانی دل کے ہاتھوں ہر جگہ ان انگریزوں کے سامنے مجبور اور بے بس ہیں ہ
ان کی سفید رنگت سے لیکر ان کی فر فر انگریزی، اٹھنے بیٹھنے کے آداب،ان کی فلمیں طرز زندگی سب ہی تو پسند ہیں یہاں تک کہ روز روپے کی گرتی قیمت بھی ہمارے دل میں ڈالر سے نفرت پیدا نہ کر سکی ایسے ہی ان کے نسلی کتے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
ہمارے ایک دوست نے امریکہ سے روٹ وائلرر منگوایا (اس کتے کی وفا داری تو مشہور ہے ہی،ساتھ میں اپنے مالک کے علاوہ کسی کا حکم نہیں مانتا معذرت کے ساتھ کچھ عادتیں ہماری سیاست دانوں سے ملتی ہیں) اس اعلیٰ نسل کتے کی دیکھ بھال کے لیے نہ صرف ملازم رکھا بلکہ خوراک اور ویکسینیشن پر بھی پیسہ پانی کی طرح بہایا، اس کتے کی شاہانہ زندگی پر تو خود مجھ جیسے بیروزگار صحافی کو بھی رشک آنے لگا،،،نسل کی بات ہو رہی ہے تو انگریز کتوں اور انسانوں کی اس خاصیت سے بخومی آگاہ ہیں۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اس کا پورا فائدہ اٹھایا یقین نہ آئے تو بلوچستان کی تاریخ کو پڑھ لیں سب سے آخر میں برطانوی راج کا حصہ بننے والے اس علاقے میں ان کا دور حکومت مختصر مگر کمال کا رہا،،،،،کمال کا اس لیے کہوں گی! کیونکہ انگریزوں کو جب تک لگا وہ طاقت سے اس بہادر اور جنگجو اقوام (بلوچ اور پشتون) کو جھکا دیں گے انہیں مزاحمت کا سامنہ رہا مگر جیسے ہی یہاں کی نسل،سوچ اور رویے کو سمجھے تو سرزمین پر قابض ہو گئے، کہیں مقامی افراد کو زمیں بطورتحفہ دی۔
کہیں خوشامد سے کام بن گیا جبکہ بہادر مگر سادہ لوح لیڈروں کے خلاف سازش کر کے انہیں یا تو منظر نامے سے ہٹایا گیا یا قتل کر دیا گیا،آج ستر سال بعد بھی اگر دیکھا جائے تو انگریزوں کی طرز سیاست سے متاثرہ وفاق نے اپنی روش نہیں بدلی۔
ماضی میں قرآن کا واسطہ دے کر دھوکا دیا اور آج بلوچستان کے نظریات اور مفادات کو پس پشت ڈال کر پروپیگنڈاکیا جاتا ہے کہ بلوچ اور پشتون سیاسی رہنما کم عقل،جاہل اور پس ماندہ ہیں مگر جب انہی جاہل لیڈروں کے ساتھ کوئی معاملہ خراب ہوتا دکھائی دے تو انداز اور رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔
بہادری کا تاج تو ہمارے سروں پر سجا دیا گیا ہے مگر حق دینے کو تیار نہیں۔پشتون قوم ذرا جزباتی ہے تو انہیں ان کے جذبات کے ذریعے ورغلا کر غدار قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ذرا سادہ طبیعت کے بلوچ قوم کو تو صرف وعدوں پر ہی ٹرخادیا جاتا ہے۔
ایٹمی طاقت کے حامل اس ملک میں میزائل کے نام تو پشتون تاریخ کے سنہرے باب سے لیکر رکھے جا رہے ہیں مگر جب وہ درجہ چہارم کے ملازمین سے زیادہ کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی،کہیں بھی دنیا کہ کسی کونے میں بلاجواز طاقت کا استعمال کیا گیا ہے وہاں انقلاب نے جنم لیا ہے ہم ماضی کو دہرانے اور مغربی پاکستان جیسے سانحہ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
بلوچستان میں کار فرما خاموش قوتوں کو تاریخ کے اس درد ناک پہلوکا ضرور مطالعہ کرنا چائیے اور کٹھ پتلی سرکار بھی ہوش کے ناخن لے۔ سچ ہے رویہ، مزاج اور لہجہ نسلوں کا پتہ دیتی ہے اب یہاں کون کس نسل سے تعلق کا ثبوت دے رہا ہے اس سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑتی ہوں۔
تحریر کو ذرا مختصر کرتے ہوئے میرا ذاتی خیال ہے کہ کتے ہی نہیں دوست بھی نسلی رکھنے چائییں،چاہے وہ دوست آپ کے ہوں، اس ملک کے یا پھر آپ کے دشمن کے۔ہاں مگر انسان خون کے رشتوں کو تبدیل نہیں کر سکتا تو اگر اپنے حقیقی رشتوں سے کوئی اختلاف ہو یا معاملہ اندرونی ہو تو جو اپنے لیے طریقہ کار اور رویہ چاہتے ہو، اس رویے کو دوسروں کے لیے بھی سوچیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔