ملکی تاریخ میں کبھی کسی بھی دور میں عوام کو یہ سننے کو نہیں ملا کہ بحرانات ٹل گئے، ملکی معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، اب غریب عوام بیروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی سمیت دیگر سہولیات کیلئے ترسے گی بلکہ عوام پہلے سے بھی زیادہ خوشحال ہوگی۔
یہ شاید آنے والی تاریخ میں بھی ملکی عوام نہیں سن سکیں گے اگر یہ معجزہ ہو ااور سارے بحرانات ختم ہوجائیں پھر بھی ملکی عوام کو یقین نہیں آئے گا کیونکہ گزشتہ ستر سالوں کے دوران غریب عوام نے شہنشاہیت پسند حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات اور ان کے لئے گئے قرضوں کابوجھ برداشت کیا ہے اوراب اس کے عادی ہوچکے ہیں اس لئے وہ کسی بھی تبدیلی کی امید نہیں رکھتے۔
مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں پی ٹی آئی نے مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، ٹیکسزکے خلاف سب سے زیادہ بات کی اور اقتدار میں آکر تبدیلی لانے کا دعویٰ کیا مگر یہ صرف دعوے ہی ثابت ہوئے۔ موجودہ مہنگائی اور معاشی بحران کی ذمہ داری پی ٹی آئی کے کھاتے میں آئی ہے نیز اس حکومت نے بیرونی قرضہ لیکر یہ ثابت کردیا کہ قومی خزانے پر کسی بھی حکمران نے رحم نہیں کھایا اور نہ ہی غریب عوام پر ترس کھاتے ہوئے قرض کے اربوں لیکر انہیں ملکی وسائل پر خرچ کرتے ہوئے بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہوبلکہ عوام پر ہی ٹیکسز کے ذریعے یہ بوجھ ڈال دیا جبکہ قرض کی رقم کو لاپتہ کردیا جس کا کسی کو علم نہیں کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے۔
قرضوں کو کہاں اور کس پر خرچ کیا گیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ موجودہ مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرنے کے دوران کہا کہ ملک کا امیر ٹیکس ادا کرنا نہیں چاہتا اگر ٹیکس جمع نہیں کرسکے تو اخراجات پورے نہیں کرپائیں گے۔ حفیظ شیخ اس سے قبل بھی محکمہ خزانہ کی وزارت پر رہ چکے ہیں جو معیشت کے حوالے سے بہت تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح امیر ٹیکس ادانہیں کررہے اور انہیں ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار میں کیونکر نہیں لایاجارہا یقینا اس بات کا جواب مشیر خزانہ کے پاس ہوگا کیونکہ ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ملک میں بیشتر امیر طبقہ کا تعلق حکمران جماعتوں سے رہا ہے جنہوں نے سیاست کی چھتری کے نیچے رہ کر کاروبارکرتے ہوئے خوب رقم کمایا ہے جن پر ہاتھ کبھی نہیں ڈالاگیا۔سیاسی شخصیات کے گرد گھیرا تو تنگ کیاجارہا ہے۔
البتہ ایسے سینکڑوں افراد اس وقت ملک میں موجود ہیں جنہوں نے سیاسی وابستگیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دولت کو دگنا کرتے ہوئے رقم باہر منتقل کی اور جائیدادیں بھی بنائیں لہٰذا ان کی فہرست طلب کرتے ہوئے غیر قانونی طریقے سے پیسے کمانے اور ٹیکس نہ دینے پر جیلوں میں بند کیاجائے۔
مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے برآمدات کی شرح میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ڈالر کمانے کی طاقت صفر رہی ہے، جب ملکی وسائل کو صحیح استعمال میں نہ لاتے ہوئے سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی تو برآمدات میں کیسے اضافہ ہوسکتا ہے ہر دور میں بجٹ خسارہ زیادہ پیش کیا گیا جبکہ ترقیاتی منصوبوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی پھر کس طرح سے ڈالر کمانے کی سکت رکھی جاسکتی ہے اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
ملکی معیشت کو اگر خطرات لاحق ہیں اور روپے پر دباؤ برقرار رہے گا تو صورتحال یقینی طور پر بے قابو ہوجائے گی اور اس کے بعد مزید مہنگائی میں اضافہ ہوگا جبکہ قرضہ دینے کی صلاحیت اس وقت پیدا ہوگی جبکہ ملکی برآمدات میں اضافہ کرنے کیلئے معاشی منصوبہ بندی کی جائے گی۔ مشیرخزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ سابق حکومتوں نے 31 ہزار ارب روپے کے قرضے لئے جن پر ہمیں تین ہزار ارب روپے کا سود دینا پڑے گا۔
ہم ضروری اصلاحات نہیں کر پائے، پچھلی حکومتوں نے درآمدات بڑھانے کی بھی کو شش نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب ڈالر رہا ہے، گزشتہ حکومت کے آخری سال میں 2 ہزار 3 سو ارب روپے آمدنی سے زیادہ خرچ کئے گئے۔
حفیظ شیخ نے بتایا کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا، صرف وہی ملک لوگوں کو خوشحالی دے سکتے ہیں جنہوں نے چیزیں دیگر ممالک کو فروخت کیں۔سابقہ حکومتوں نے 31ہزار ارب روپے قرض تو لئے ہیں مگر اس کا سراغ حکومت کو لگانا چاہئے کہ وہ پیسے کس کی جیب میں گئے ہیں کیونکہ اتنی رقم لینے کے بعد بھی پھر قرض لینا اس بات کو واضح کرتی ہے کہ پیسے کرپشن کی نظر ہوگئے ہیں۔
لہٰذامزید عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہوئے موجودہ لئے گئے آئی ایم ایف کی رقم کو صحیح معنوں میں خرچ کیاجائے جس سے محاصل میں اضافہ ہوسکے اور ساتھ ہی کھربوں روپے ہضم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے رقم قومی خزانے میں واپس کیا جائے تاکہ عوام کو احساس ہو کہ اس رقم میں کچھ ان کے اوپر بھی خرچ کیا جائے گا۔