طلباء سیاست سے میرا تعلق پچھلے کئی عرصوں سے ہے۔اس عرصے میں جب میری ملاقاتیں طالب علموں سے ہوئیں تو سب کی زبان سے ایک جملہ بکثرت سننے کو ملا کہ ہم پڑھنا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی اور سہولیات کی عدم دستیابی اور دیگر موجودہ مسائل کی وجہ سے ہم سکون سے پڑھ نہیں سکتے۔
نہ ہمارے پاس ایسے ادارے موجود ہیں اور نہ ہی لائبریریاں جہاں بیٹھ کر ہم پڑھ سکیں۔ ہماری شروع دن سے ہی یہی کوشش رہی کہ بلوچستان کے طلبہ و طالبات بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں رہ کر تعلیم حاصل کریں اور انہیں ان اداروں کے اندر ہی سہولیات میسر ہوں لیکن آنے والی ہر حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے طلبا و طالبات کو وہ سہولتیں میسر نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے طالب علموں کی کثیر تعداد اسی جدوجہد میں لگی ہوئی ہے کہ انکے داخلے بلوچستان سے باہر کسی دوسرے صوبوں میں ہو ں تاکہ وہ معیاری تعلیم حاصل کرسکیں۔
بلوچستان تعلیمی حوالے سے ایک پسماندہ صوبہ ہے جہاں تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ موجودہ وقت میں میڈیکل کالجز میں داخلوں کے مسائل کی وجہ سے طلبا و طالبات نہ صرف مشکلات کا سامنا کررہے ہیں بلکہ اپنے تعلیمی کیرئیر کے حوالے سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں لیکن ان معصوم طالب علموں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔
بے دست و بے پا بلوچستان حکومت کو تو طلبا و طالبات کے مسئلے اور مسائل سے کوئی سروکار نہیں اور اپوزیشن میں بیٹھی پارٹیوں اور ان کے نمائندے بھی تو طالب علموں کو گھاس تک نہیں ڈالتے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے مسئلے و مسائل اپوزیشن کے ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ تو پی ایس ڈی پی، روڈ اور نالیوں کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان حکومت کی جانب سے پہلے تین میڈیکل کالجز کی منظوری دی گئی یہ کالجز سات سالوں تک صرف کاغذوں کی زینت بنے رہے۔ پھر طالب علموں کے احتجاج اور بھوک ہڑتال کی وجہ سے حکومت وقت نے مجبور ہو کر نئے میڈیکل کالجز میں داخلوں کا اعلان کردیا اور ڈیڑھ سو کے قریب طلبا و طالبات کو داخلہ دیا گیا۔
بے چاری بلوچستان حکومت کالجز اور داخلوں کے اعلان کے بعد مطمئن ہوکر بیٹھ گئی کہ انہوں نے اپنا کام مکمل کردیا لیکن تعلیم سے نا آشنائی رکھنے والی غیر متحرک حکومت کے مجبور اور لاچار نمائندے خوش فہمی میں یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ میڈیکل کالجز پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی اجازت کے بغیر رجسٹرڈ نہیں ہوسکتے اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی کچھ ریکوائرمنٹس ہوتی ہیں جن کے بغیر کالجز کا رجسٹرڈ ہونا مشکل امر ہے۔
اسے حکومت کی نااہلی سمجھیں یا غیر سنجیدگی کہ انہیں میڈیکل کالجز کے رجسٹرڈ ہونے کے اصول و ضوابط کی خبر نہیں۔اسی سال پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی انسپیکشن ٹیم نے ان کالجز کا دورہ کیا اور انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ ریکوائرمنٹس کو جلد از جلد پوری کریں لیکن انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ قوم کے معماروں کی فلاح کے لئے سوچیں،انکی سوچ بس اپنی ذاتی مفادات تک محدود ہے۔اب پانی سر سے گزرچکا ہے تو اب یہ کیا سوچیں اور کیا کریں۔
حال ہی میں بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز کی جانب سے بلوچستان کے تین اضلاع میں قائم میڈیکل کالجز کا داخلہ ٹیسٹ لیا گیا لیکن جب رزلٹ کی باری آئی تو یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہمیں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جانب سے منع کیا گیا ہے-150 کے قریب طلباء ایک سال سے بغیر رجسٹریشن کے پڑھ رہے اور انہوں نے اپنے فرسٹ ایئر کے امتحانات پاس کر لئے ہیں۔یہاں کسی کو طلبا ء کے مستقبل کی فکرنہیں ہے۔ تعلیمی ادارے طلباء کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں جبکہ عوام کے نام پر حکومت کرنے والے لوگ کمیٹیوں کے اوپر کمیٹیاں بنانے میں مصروف ہیں لیکن عملی طور پر طالب علموں کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔
قوم کے مستقبل کے معمار تعلیمی اداروں کے اندر کم اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتے زیادہ نظر آرہے ہیں اور ہر طالب علم کی زبان پر صرف ایک ہی التجاہے کہ ہمیں پڑھنے دو ہم پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں معاشرے کے ہر طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طالب علموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔کیونکہ یہ تو سب کو پتہ ہے ہماری حکومتوں کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کیا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو پتہ نہیں ہے اصل میں ان کو کیا کرنا چاہیے۔