دنیا بھر کے ممالک میں بجٹ پیش کرتے وقت اُن ممالک کے حکومتوں کو ملک میں موجود وسائل، ملکی اخراجات اور ریاستی و حکومتیاخراجات کامکمل ادراک ہوتا ہے لیکن پیارے پاکستان میں حالیہ بجٹ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کو شاید ان چیزوں کا ادراک ہی نہیں تھا بلکہ شاید انہیں ملک میں موجود غربت کی شرح اور انپے اخراجات کا بھی علم نہیں تھا تبھی تو بجٹ میں ان دونوں اجزاء کے اعداد و شمار و حساب کتاب میں جھول نظر آیا۔ گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے جب 2019-20 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تو تبدیلی سرکار کا یہ 70 کھرب 22 کروڑ رپے کا پہلا بجٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ کا انتہائی خسارے پر مبنی بھی پہلا بجٹ ہے۔
ملک کی معاشی ابتری اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ملکی بجٹ کو 37 کھرب خسارے کا سامنہ ہے یعنی ملک تقریباً 52% خسارے کا شکار ہے وطن عزیز کی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 10 برس میں 36 ارل ڈارٹر کے ملکی قرضہ جات پر 10 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں ادائیگیاں کی گئی ہیں جبکہ اصل اپنی جگہ بر قرار ہے۔ کپتان کے خول سے خود کو نہ نکال پانے والے وزیر اعظم عمران خان بلا کسی شرمندگی اعترافیہ و اعلانیہ کہتے پھرتے ہیں کہ ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں مزید شدت آئے گی۔
عوام کو کسی ریلیف نہملنے والی بات سے متعلق کیا کہا جائے یہ بات تو اب عوام بھی سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے نئے قرضے تو سود کی ادائیگی اور حکومتی و انتظامی اخراجات پر صرف ہوجاتے ہیں لیکن اس کے بدلے ملک میں ٹیکس شرح میں اضافے، بجلی و گیس سے سبسڈی کے خاتمے اور نرخوں میں مسلسل اضافے سے مہگائی کے طوفان کا سامنا اُنہیں کرنا پڑتا ہے اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اِن قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ بھی اُن کی پہلے سے خم ہوتی کمر پر ہی لاد دیا گیا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت میں مینو فیکچرنگ کا شعبہ ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے جس سے روز گار کے مواقع میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی طلب کی تکمیل اور ملکی بر آمدی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ہماری ملکی پالیسیوں میں مینو فیکچرنگ ترجیح ہی نہیں ہے جس وجہ سے اس کی شرح دن بہ دن گرتی جارہی ہے اس وقت ہماری حیثیت بھی خام مال فراہم کنندہ اور کنزیومر کی سیڑھی ہو کر رہ گئی ہے پھر ایسے میں اداروں کی نجاری، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ ملک کی معیشت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔
ایسی ہی صورتحال سے دوچار ممالک برما اور بنگلا دیش ایک اعلیٰ مثال ہیں جو قرضہ جات سے اپنی ملکی پالیسیوں پر بیرونی اثرات کو کم سے کم اثر انداز ہونے اور ملکی استحکام و عوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں مستحکم پالیسیوں کا فقدان رہا ہے اور پائیدازر تری کے امکانات پیدا نہیں ہوتے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاک چین آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے۔ جس سے واضح نظر آتا ہے کہ ہماری بر آمدی اشیاء کا تناسب چین کی بر آمدات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ تو پھر کس طرح یہ معاہدہ ملکی مفاد میں ہوا ویسے بھی گزشتہ برسکے اعداد و شمار ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں کہ ہمارا در آمدات اوربر آمدات کے توازن میں 20 ارب ڈارل کا نقصان ریکارڈ ہوا ہے۔
ڈدوسری جانب میڈیائی رپورٹس کے مطابق بیرونی سر مایہ کاری مں ی 55 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ صرف چین، برطانیہ اور سوئزر لینڈ کی بیرونی سرمایہ کاری میں 42% کا دھچکا لگ چکا ہے ملک میں مہنگائی کی شرح ملک یتاریخ کی بلند ترین سطح 7 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ کنزیومر پرائس انڈیسک کی سطح 13 فیصد تک پہنچانا بھی تشویش ناک ہے دوسری جانب حکومتی اخراجات میں 17 سے 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دفاعی اخراجات میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان کے باوجود 50 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے پھر تبدیلی سرکار نے اپنے 10 ماہ کے دورانیے میں وفاقی ترقیاتی بجٹ یعنی 725 بلین روپوں کی حامل فیڈرل پی ایس ڈی پی میں 250 ملین روپے کمی یعنی 25 فیصد کمی جبکہ پنجاب میں 50 فیصد تک کمی کردی گئی ہے۔ جس سے بیروز گاری میں اضافے کا امکان ہے اور ریگولیٹری ڈیوٹی کی مد میں 900 عام اشیاء پر اضافہ کردیا گیا ہے۔
ا
یوان کو سال پورا ہونیوالا ہے لیکن نہ حکومت کی جانب سے عوامی بھلائی و ملکی امور پر کوئی حقیقی قانون سازی ہوئی ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی جانب سے عوام کے حقیقی مسائل پر ہی کوئی پوائٹ آف آرڈر کوئی بل یا کوئی ریفرنس اور احتجاج یا کوئی آواز سننے میں آئی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کی قیادت کی کردار کشی پر زور نظر آتا ہے جبکہ معاشی ماہرین گزشتہ کئی ہفتوں سے حالیہ بجٹ کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے رہے ہیں۔
بقول اُن کے یہ بجٹ حرف بہ حرف آئی ایم ایف کی جانب سے یا پھر اُن کی ہدایت پر اُن کے حاضر سروس اور سابقہ ملازمین کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے موجودہ مالی اُمور کے منتظمین نے تیار کیا ہے جو کہ ملک و عوام کے مفادات کے بجائے آئی ایم ایف کے مفاد میں بنایا گیا ہے۔ اور اسی لئے اس بجٹ سے انتہائی خسارے سے معیشت کی ریڑھ توڑنے کے ساتھ ساتھ عوام پر مہنگائی کا بم بھی گرایا گیا۔
جہاں تک مالی اُمور کی بات ہے تو سعودیہ، چین، یواے ای، آئی ایم ایف کے 24ب ڈالر کے ساتھ ساتھ عوام سے بجلی و گیس کے اضافی بلوں کی مد میں وصول ردہ 22 ارب ڈیم فنڈ کے نام پر وصول کئے گئے 14 ارب اور پھر نیب کے ذریعے ریکور کئے گئے 200 ارب کی وصولوں کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کہیں یہ پیسہ کسی عوامی اسکیم پر خرچ ہوتے نظر آرہا ہے اور نہ ہی بجٹ میں تو آخر یہ پیسہ کہاں جارہا ہے اور پھر اتنی بڑی رقم کی موجودگی کے باوجود روپے کی قیمت مسلسل کیوں گر رہی ہے اور بجٹ میں عوام پر مہنگائی کا بم گرانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟
حکومت اور اُس کی معاشی ٹیم کو کوئی اتنی سی بات سمجھائے کہ سونے کے دام بڑھنا تو معیشت کے اعداد و شمار پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن پیٹرول، بجلی اور گیس کے نرخ میں اضافہ عوام کی زندگیوں پر براہ راست منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ مہنگائی محض معیشت کے اعداد و شمار سمجھانے تک محدود نہیں رہتی بلکہ ملک میں بھوک، افلات اور بد حالی کی داستان میں نئے ابواب کا اضافہ کرتی ہے اور ساتھ ہی چوری، ڈاکہ زنی، زخیرہ اندوزی بد عنوانی، رشوت ستانی جیسے جرائم ودیگر معاشرتی برائیوں کو بھی فروغ دیتی ہے مہنگائی کے باعث لوگ اب 3 کے بجائے دو وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔
بات یہاں بھی نہیں رُکتی۔ عوام اس مصیبت سے بی سنبھل بھی نہیں پائے ہیں کہ حکومت بلا کسی شرم و حیایہ اعلان کرتے نظر آتی ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ بجلی، گیس اور پیٹرول تو پہلے ہی مہنگے کردیئے گئے ہیں جس سے عوام کا جینا دو بھر ہوچکا ہے اوپر سے مہنگائی کا یہ نیا طوفان۔۔! لگتا ہے عوام کو چکی کے پاٹوں میں ڈال کر پیسنا ہی تبدیلی سرکار کا ایجنڈہ ہے۔
کیونکہ وزیر اعظم نے اپنے قوم سے پہلے خطاب اور 100 دن کی تکمیل پر خطاب سے اب تک کئے جانے والے تمام خطابوں میں صرف اعلانات پر ہی اکتفا کئے رکھا ہے جن پر اب تک کوئی عملی کام نہیں کیا گیا اور نہ ہی اب ان سے متعلق کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی بتائی گی ہے حکومت کا معیشت کی نبض پر ہاتھ نہ ہونے کے قصے بھی زدعام ہوتے جارہے ہیں جس کے لئے ایک مثال پٹرولیم مصنوعات میں عالمی سطح پر 25 فیصد کمی کی صورت میں نظر آیا، جس پر ہماری حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے کے موڈ میں ہی نظر نہیں آئی۔
دراصل تیل کی مصنوعات میں کمی کو ملکی سطح پر نرخوں میں کمی کو معیشت میں کس زاویے سے FiT کیا جائے ان کی سمجھ نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ کہ وہ اس معیشت میں عدم استحکام پیدا ہونے کا سب قرار دیتے رہے یعنی عالمی سطح پر اضافہ تو وہ لاگو کرسکتے ہیں لیکن کمی ان سے adjust نہیں ہوپارہی۔
جبکہ ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی جنیوا سے جاری کی گئی رپورٹ میں دیگر 3 سارک ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مہنگائی بیروز گاری و خراب طرز حکمرانی کو بڑے مسائل قرار دیا تھا جبکہ پانی بحران کو معیشت کے لئے خطرہ اور دہشتگردی کوانتہائی بڑا چیلنج قرار دیا تھا اور جب حکومت کے 10 ماہ کے اقدامات و اُمور پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی بہتری کی ابتداء نہیں ہوسکی ہے اور تو اور تھر میں قحط سے لوگوں کے مرنے کا طویل عرصہ سے جاری سلسلے کی روک تھام کے لئے یا کوئی خصوصی مراعاتی پیکیج تک بجٹ میں ہیں رکھاگیا۔ جبکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت میں کسان ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اُن کے لئے بجٹ میں کوئی ریلیف یا اولیتی پالیسی نظر نہیں آئی۔
یہ اور ان جیسی دیگر باتوں کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ج باس بجٹ میں سرکاری ملازمین سے لیکر افسران تک تاجروں سے صنعتکاروں تک اور پھر اوورسیز پاکستانیوں و بیرونی سرمایہ کاروں سے عام عاوم تک کسی کے لئے بھی کوئی مراعاتی و استحکامی اُمور و پالیسیوں پر مبنی کوئی پیش رفت یا پیشکش نہیں ہے تو آخر 37 کھرب کے خسارے کا یہ بجٹ کس کے لئے پیش کیا گیا۔