26 جون کو دنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں منشیات کے نقصانات کے حوالے سے شعور و آگاہی اجاگر کرنا ہے، یقینا کسی بھی ملک و قوم کی حقیقی ترقی کا انحصار وہاں کے افراد کی ذہنی اور جسمانی قوت پر ہوتا ہے منشیات کا استعمال انسانی صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے جس معاشرے کو منشیات کے تاریک سائے اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں وہ معاشرہ بد امنی،معاشی، معاشرتی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے، نشہ انسانی نقطہ نظر سے ایک لعنت ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے ممنوع۔طبی لحاظ سے نقصاندہ اور ماہر نفسیات کی رائے میں بیمار ذہن کی علامت ہے جبکہ معاشرتی لحاظ سے یہ لعنت نہ صرف عادی افراد کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس مہلک زہرکی وجہ سے پورا خاندان اور معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔
منشیات کا زہر نہ صرف فرد کی عزت،غیرت اور ضمیر کو متاثر کرتا ہے بلکہ انسان کو ایک زندہ لاش بنادیتا ہے،نشہ ایک ایسا مکروہ فعل ہے جو انسانی رشتوں کو کمزور کرتا ہے اور نشہ کرنے والا عادی شخص نشے کے حصول کیلئے بڑے سے بڑا جرم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا، نشے کی غلامی انسان کو اپنے پیاروں،بھائی،بہن،بیٹے یا قریبی عزیز کی موت سے بھی سروکار نہیں رہنے دیتا بلکہ اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف نشے کا حصول ہوتا ہے جس کیلئے چوری کرنا بھیک مانگنا اور قتل تک کرنے سے گریزاں نہیں رہتا، یہ ایک حقیقت ہے کہ منشیات کی لعنت جس رفتار کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور یہ زہر جس طرح لاکھوں ہنستے بستے گھروں کو ویران کررہی ہے۔
یقینا یہ پورے معاشرے کیلئے المیہ سے کم نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس لعنت کے تدارک کی ذمہ داری صرف متعلقہ اداروں کی ہے یا معاشرے کے دیگر مکتبہ فکر کے لوگ جیسے دانشور،اساتذہ،والدین،سیاست دان اور خاص کر علماء کرام،تاجر برادری اور سماجی تنظیمیں اس زہر قاتل کو انسانیت کاقاتل سمجھ کر اپنا فرض ادا کررہے ہیں یا نہیں اگر ہاں تو پھر اس کے بڑھنے کے وجوہات کیا ہیں اور اگر نہیں تو پھر یہ سمجھنا چاہیئے کہ اس قتل میں ہم سب برابر شریک ہیں۔
پورے بلوچستان بلخصوص رخشان بیلٹ جو کہ ایران اور افغاستان کے بارڈر پر واقع ہے جسے انٹر نیشنل ڈرگ روٹ بھی کہا جاتا ہے جہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ اور نوجوان نسل کی منشیات کی طرف رجحان یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ منشیات کی لعنت معاشرے میں کینسر کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔
ملک،صوبہ اور سماج دشمن عناصر اپنے مذموم عزائم اور دولت جمع کرنے کی ہوس میں نوجوانوں کے مستقبل کو جہاں داؤ پر لگا دیا ہے وہاں ذمہ دار حکومتی حلقوں، سول سوسائٹی اور والدین کیلئے بھی ایک چیلنج بن گیا ہے ہر فرد کو ہنگامی بنیادوں پر سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔حکومتی عدم سنجیدگی والدین،اساتذہ اور سماج کی لاپرواہی کی وجہ سے مدارس،سکولوں،کالجز اور یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیمی اداروں کے بچے اور بچیاں جو اس قوم کا مستقبل ہیں انہیں منشیات کی لعنت سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
نوشکی شہر میں بد امنی کی ایک اہم وجہ منشیات ہے جہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جن میں کم سن بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔جن اداروں اور قوتوں کو اس لعنت کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے بد قسمتی سے وہ خود منشیات کے کاروبارسے منسلک ہیں۔
منشیات ایک قوم،زبان یا مذہب کادشمن نہیں بلکہ یہ تمام اقوام،زبانوں اور مذاہب کا مشترکہ دشمن ہے تو اس کے خاتمے کیلئے بھی ہم سب کو متحد ہوکر جدوجہد کرنا چاہئے،سب کو ایک ساتھ ہوکر حکومت سے قانون سازی کا مطالبہ کرنا ہوگا تاکہ کوئی ایسی قانون بنے جس میں منشیات کے کاروبار کرنے والوں کوسخت ترین سزادی جائے اور ان کی جائیداد ضبط کی جائے۔
سکول،کالجز اور یونیورسٹی سطح تک منشیات اور اس کے مضر اثرات سے آگاہی کے حوالے سے نصاب میں مضمون شامل کیا جائے،منشیات کی لعنت کے خلاف آگاہی مہم چلائی جائے،میڈیکل اسٹورز میں مستند ڈاکٹرز کے نسخوں کے بغیر کسی صورت خواب آور یا نشہ آور ادویات فروخت نہ کی جائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کیجائے تاکہ منشیات کے استعمال میں کمی واقع ہو، کیونکہ اس زہر کی وجہ سے لاکھوں گھروں میں معصوم بچے باپ کا سایہ ہوتے ہوئے بھی زندہ یتیم ہیں، لاکھوں خواتین شوہر زندہ ہونے کے باوجود بیوہ ہیں۔
مائیں اور بہنیں اپنے لخت جگر اور بھائیوں کو سڑکوں،نالیوں اور گلیوں میں سسکتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اس خون کا حساب کس سے لیں؟ قرآن کریم میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔۔۔تو آئیے انسانیت کو بچانے کیلئے عہد کریں کہ ایک پر امن،خوبصورت اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کیلئے منشیات کے زہر کے خلاف مل کر جدوجہد کریں گے اور منشیات سے پاک معاشرہ کی تشکیل کو یقینی بنائیں گے۔