پنجگور: تعلیم یافتہ بیروزگاران نے کہا ہیکہ بلوچستان میں بے روزگاری عروج تک پہنچ گئی صوبائی حکومت نے روزگار کے حوالے سے خاطر خواہ بجٹ میں کوٹہ اور تخلیق پیش نہ کرسکا 5445 روزگار کے مواقع کی خوشی فہمیاں گزشتہ حکومت میں بھی جوانوں کو ملے لیکن تاحال اس کے عملی اقدامات کسی نے نہیں دیکھے ہیں اور یہی 5445ملازمت کے مواقع بیورو کریٹ اور سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی پہ متواتر مشتہر و کینسل کی زدِ اثر ہوکر ہی رہ جائیں گے۔
ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا آیا ہے گزشتہ کئی سالوں سے ہر بجٹ میں بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے 12000 سے لیکر 5000 تک کے اعلانات ہوئے ہیں لیکن تاحال انکا عملی صورت میں کہیں کوئی پتہ نہیں ہے سن اعلان کردہ روزگار کے مواقع پراگر آج ان پر رسی کشی نہ ہوتی تو بلوچستان میں بے روزگاری کا سوال پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے روزگار کوٹہ کا اعلان ہوا آیا ہے لیکن بلوچستان روزگار کوٹوں پرملازمت کی عیاشیاں پنجاب نے کئے ان کوٹوں سے بلوچستان کے کسی بھی بلوچستانی کو فائدہ ملا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہر سال بلوچستان سے دس ہزار سے زیادہ اسٹوڈنٹس مختلف کالجز سے فارغ ہوکر روزگار کی تگ ودو میں دفتروں کے خاک چھانتے ہیں لیکن بلوچستان اسمبلی میں انکا آدھا پیش کیا جاتا ہے پھر ان پر کسی قسم کا کوئی عمل نہیں ہوتا ہے اور بے روزگاری سے مجبور ہو کر مختلف سماجی برائیوں کے شکار ہو جاتے ہیں جو سماجی وملک اورمعاشرے کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
ملک کے اندر بدامنی کی سب سے بڑی وجہ بھی نوجوان طبقے میں ملک کے اندر قانونی آئینی نابرابری استحصالی نظام کی وجہ ہے ملک میں مہنگائی کا سوئی دن بدن آپنی ہائیٹ سے چھڑتا جارہا ہے لیکن ملک کے سب سے بڑی طبقہ نوجوان ہیں جو اپنی روزمرہ کی خواہشات پورا کرنے کیلئے ریاست سے مایوس ہیں۔
انہوں نے کہا ہیکہ حکومت اگر روزگار کے مواقع پیدا کرنہیں سکتا ہے برائے کرم بجٹ میں اعلان کردہ ملازمت کے مواقع کو عملی جامہ پہنا دیں تاکہ معاشرے میں پھیلی ہوئی انا کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔