بلوچستان کی سیاسی جماعتوں بشمول عوام کا ہمیشہ یہی شکوہ رہا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا بلکہ ہمیشہ اسے نظرانداز کیا گیا، بلوچستان کے ساتھ جس طرح کا رویہ اپنایا گیا کہ حالات انتہائی مخدوش ہوکر رہ گئے مگر پھر بھی رویوں میں تبدیلی نہیں آئی حالانکہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس سے واقف ہیں کہ بلوچستان کا بنیادی مسئلہ ناانصافیاں، حق تلفی، سیاسی حقوق کو غضب کرنا ہے۔
بدقسمتی سے یہی سوال ہر بار ہر فورم پر اٹھایا جاتا رہا کہ بلوچستان کا مسئلہ کس طرح حل کیا جاسکتا ہے یقینا اس سے قبل بھی قوم پرست جماعتیں مرکز میں ماضی کی حکومتوں کا حصہ بنتی رہی ہیں انہوں نے بھی بلوچستان کے حوالے سے اپنے مطالبات سامنے رکھے تھے مگر کس کی کمزوری تھی کہ اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں ناکامی رہی کتنی بار معاملات کی سرجری کی گئی مختلف تجربات کئے گئے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا 70 سالوں سے مسائل وہی موجود ہیں۔
میگامنصوبوں سے دودھ اور شہد کی نہروں کی باتیں صرف مرکز سے ہی سننے کو ملی، بلوچستان کی ترقی کی چمک دمک کو نقشوں میں اس طرح کھینچا گیا گویا یہ مغرب، دبئی، سنگاپورجیساخطہ نظرآنے لگا جب لوگ بلوچستان کے اصل حقائق سے واقف ہوئے تو حیران رہ گئے کہ جس طرح سے بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کو نقشوں میں دیکھاگیا زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں مالامال خطہ اور میگا منصوبوں کے باوجودبدقسمت صوبہ کے حصہ میں صرف محرومیاں ہی آئی اگر کچھ دیا تو صرف طفل تسلیاں اس کے آگے بلوچستان کو کچھ نہیں دیا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی اے پی سی میں عدم شرکت ایک سیاسی فیصلہ ہے اور سیاست میں حکمت عملی وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہے کسی کی ذاتی خواہش پر سیاسی فیصلے نہیں کئے جاسکتے اسی طرح اس فیصلے کو بھی فرد کی بجائے سیاسی تناظر میں دیکھاجائے، سردار اختر جان مینگل اول روز سے صرف چھ نکات پر عملدرآمد کی بات کررہے ہیں اور اس میں وہ تمام مسائل موجود ہیں جس کامطالبہ دہائیوں سے کیاجارہا ہے جس میں ایک سیاسی جماعت کے مفادات وابستہ نہیں۔
بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل جب وفاقی وزیر پرویز خٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح طور پر کہتے ہیں کہ چھ نکات پر عملدرآمد اگر اب تک نہیں ہوا اس میں کمزوری پی ٹی آئی کی رہی ہے ان کی جماعت انتظار میں تھی کہ کب اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اسی کمیٹی پر سردار اختر مینگل کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی میں سیاسی رہنماؤں اور منتخب نمائندگان کوشامل کیاجائے جو خود جا کر بلوچستان کا دورہ کرے اور وہاں کے لوگوں سے مل کر ان کے خدشات معلوم کرکے اور اس کا حل تلاش کرے،کمیٹی اسمبلی میں رپورٹ پیش کرے، اسمبلی جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہوگا۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ این ایف سی میں کٹوتی اور اٹھارویں ترمیم کے خاتمے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا،وزیراعظم نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو نہ صرف حل کرنے بلکہ ان کی بازیابی کے لیے جلد پیش رفت کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
وفاقی وزیر پرویز خٹک نے کہا ہے کہ بی این پی مینگل کے ساتھ 6 نکاتی معاہدہ ہوا تھا، جس پر قائم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔گوادر میں صنعت اور لوگوں کے آنے کی وجہ سے یہ خدشہ تھا کہ غیر ملکی افراد شناختی کارڈ لے کر بلوچستان کا حصہ بن گئے تو اکثریت، اقلیت بن جائے گی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اسمبلی میں اس حوالے سے بِل لایا جائے گا کہ وہاں آنے اور رہائش اختیار کرنے والے غیر ملکی افراد کو شناخت نہیں دی جائے گی تاکہ گوادر اور بلوچستان کو نقصان نہ پہنچے۔پرویز خٹک نے کہا کہ بلوچستان میں کانیں بہت زیادہ ہیں، ہمارا معاہدہ ہوا ہے کہ جب بھی وہاں کام شروع ہوگا وفاقی حکومت کی جانب سے ریفائنری بنے گی جو سونے کو ریفائن کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پانی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے بہت سارے چھوٹے ڈیم قائم کیے جائیں گے جبکہ 2 بڑے ٰڈیموں ہنگول اور بولان کو پی ایس ڈی پی میں ڈال دیا ہے۔
ان کی فزیبلٹی مکمل ہوتے ہی کام شروع ہوجائے گا۔وزیر دفاع نے کہا کہ بلوچستان کو سرکاری محکموں میں 6 فیصد نمائندگی حاصل ہونے کے وعدے کو پورا کیا جائے گا اور افغان مہاجرین سے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ وہ عالمی معاہدوں کے تحت باعزت طریقے سے اپنے ملک چلے جائیں۔
اگر اس پورے نکات پر غور کیاجائے تو یہاں بی این پی مینگل کے ذاتی وگروہی مفادات کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دے رہے بلکہ یہ تمام معاملات بلوچستان کے ساتھ برائے راست جڑے ہوئے ہیں جنہیں مطالبات میں شامل کیا گیا ہے جن پر عملدرآمد سے فائدہ صوبہ کے عوام کو ہوگا، بعض حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ بی این پی مینگل اے پی سی میں شرکت کرکے ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن میں رہ کر بہترانداز میں بلوچستان کا مقدمہ لڑے گی۔
یقینا خواہش رکھنا سب کا حق ہے اور ہر کوئی سیاسی حالات کے حوالے سے سے اپنے تجزیہ رکھتا ہے مگر سیاسی جماعتوں کے اپنے ادارے ہوتے ہیں جو سوچ وبچار کے ساتھ فیصلہ کرتے ہیں، حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ بیٹھک لگاکر اپنا مؤقف رکھاجاتا ہے پھر ان ملاقاتوں کے ذریعے ہی مکمل فیصلہ کیاجاتا ہے جو بی این پی مینگل نے کیا۔
ماضی کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کیا اس سے قبل اے پی سی منعقد نہیں ہوئے تھے؟ کیا ان اعلامیہ پر بلوچستان کے مسائل کو فوقیت حاصل تھی؟دیکھنے کو تو یہ ملاہے کہ ہمیشہ بڑے اجلاسوں میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کی شرکت یقینی ہوتی رہی ہے مگر بلوچستان کے اہم معاملات کو اعلامیہ کے آخری نکات میں بھی بمشکل شامل کیاجاتارہا جس پر عملدرآمد تودور کی بات ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے اب تک جو اپنا بیانیہ رکھا ہے اس کے خدوخال کا جائزہ لیاجائے تو اس میں بلوچستان کے مفادات کو فوقیت حاصل ہے اور اس سے عوام کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی جدوجہد اور کوششوں کے ذریعے حقوق کا حصول چاہتے ہیں جو اس وقت ایک قوم پرست جماعت کے طور پر بی این پی کررہی ہے اب پی ٹی آئی پر منحصر ہے کہ کتنے عرصہ میں اپنے وعدوں کو پورا کرکے نکات پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے بلوچستان کے دیرینہ مسائل کو حل کرے گی۔
بی این پی مینگل کے اے پی سی میں نہ جانے کے فیصلے اور چھ نکات پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا سیاسی حوالے سے ایک اچھا فیصلہ ہے جہاں تک حکومت گرانے اور اپوزیشن مورچہ سنبھالنے کی بات ہے تو سیاست میں حرف آخر کچھ نہیں، پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن پنجاب حکومت سنبھال رہی تھی جبکہ مرکز میں اپوزیشن مورچہ پر تھی اسی طرح مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے موجودہ حکومت کے دوران پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت کررہی ہے جبکہ ایم ایم اے سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی ماضی میں کس حکومت کا حصہ رہی ہیں تاریخ موجود ہے جو ان کی اپنی پالیسی کا حصہ ہے اسی طرح بی این پی مینگل بھی ایک سیاسی جماعت ہے وہ اپنے منشور کے مطابق فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی تاریخ بھی ہے کہ یہی جماعت تھی جس نے مشرف دور میں اسمبلیوں سے استعفے دیئے، بلوچستان سمیت ملک بھر میں احتجاج کئے جس کی پاداش میں بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو جیل بھیجا گیا یہاں تک کے اسے پنجرے میں بند کیا گیا جسے سیاسی تاریخ میں سیاہ باب میں یاد کیا جائے گااور ساتھ ہی بلوچستان کے حقوق کیلئے اس کی جدوجہد پر بھی نظردوڑائی جائے کہ کٹھن حالات کے باوجود بی این پی اپنے سیاسی بیانیہ سے پیچھے نہیں ہٹی بہرحال یہ امید کی جاسکتی ہے کہ بی این پی مینگل کے اس سیاسی حکمت عملی اور فیصلے سے آئندہ بلوچستان کیلئے کچھ تو بہتر ہوگا۔