یہ سفر اتنا طویل تو نہیں ہے چند دنوں کی بات ہے کہ جب بلوچستان کے نوجوان ایک نئے مستقبل اور زندگی کی سب سے اہم مرحلے کا آغاز کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ پھولے سما نہیں رہے تھے کہ اب وہ میڈیکل کی کتاب اور سفید کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں Stethoscope لے کر اس کلاس میں اپنا پہلا قدم رکھیں گے جہاں انسانیت کی خدمت کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، جہاں مسیحا بننے کی تعلیم دی جاتی ہے جنہیں ہم عرفِ عام میں“ڈاکٹر”کا نام دیتے ہیں۔
لیکن جب آنکھ کھلی تو میڈیکل کالج کے بجائے وہ روڈ پر تھے. میڈیکل کتاب اور Stethoscope کے بجائے ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے۔لکھوں تو کیا لکھوں اس خواب کے بارے میں جس کے لیے یہ الفاظ ہی کم پڑ جاتے ہیں. یہ کوئی عام ساخواب نہیں بلکہ یہ ان نوجوانوں کے مستقبل کا خواب ہے جو وہ بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں جس خواب کے لیے ان نوجوانوں نے اپنی راتوں کی نیندیں قربان کر دی تھیں. جس خواب کے لیے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں. جس خواب کے لیے وہ صبح سویرے قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔
جس خواب نے انہیں بلوچستان کے دوردراز شہروں سے کوئٹہ آنے پر مجبور کیا۔ہر صبح یہی امید لے کر وہ اٹھ جاتے کہ شاید آج انہیں وہ خبر مل جائے جس کے لیے ان کی آنکھیں، کان بچپن سے بے تاب ہیں لیکن افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ناامیدی میں اضافہ ہوتا گیا۔اور بالآخر انہیں اس پریس کلب جانا پڑتا ہے جو ان کے خواب کا حصہ تھا ہی نہیں۔
انہوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ انہیں میڈیکل کالج کے بجائے پریس کلب جانا پڑیگا اور Stethoscope کے بجائے بینرز اٹھانے پڑیں گے۔اب تو ہر روز میرے دماغ میں یہ سوالات گردش کرتے رہتے ہیں کہ کیا اب بلوچستان کے طالب علموں کو خواب دیکھنا چھوڑ دینا چاہیے؟کیا اب والدین اپنے لخت جگروں سے یہ امیدیں وابستہ نہ کریں کہ ان کے بچے علم حاصل کرکے اچھے اور کامیاب انسان بن جائیں گے؟
کیونکہ اب تو یہ واضح نظر آ رہا ہے کہ حکمران نہیں چاہتے ہیں کہ ہم علم حاصل کریں۔پریس کلبوں میں جانا اور احتجاج کرنا اب تو ہمارے لیے روز کا معمول بن چکا ہے. پہلے تو ان نوجوانوں کو ان میڈیکل کالجوں کے قیام اور آغاز کے لیے اپنے کئی مہینے برباد کرنے پڑے. پھر ان کے ٹیسٹ کے لیے. اب کلاسز کے آغاز کے لیے انہیں واپس انہی روڈوں پر آنا پڑا. کل ان کالجوں میں سہولیات کے لیے انہیں روڈوں پر آنا پڑے گا۔
اب ایسا لگتا ہے ان پریس کلبوں اور بینرز کو ہم سے پیار ہوگیا ہے جو ہمیں چھوڑنے کا نام تک نہیں لیتے یا یہ اب ہمارے مستقبل کا لازمی حصہ ہیں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ایک ٹویٹ پر اسمبلی کے فلور پر 5 گھنٹے فضول بحث کرنے کا ٹائم ہے لیکن اس قوم کا مستقبل سنوارنے والوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے 5 منٹ تک نہیں۔
ٹھیک ہی کہا تھا ایک دوست نے،”بلوچستان وہ خوش قسمت صوبہ ہے جہاں ہر چیز روڈ پر مل جاتی ہے“۔خدارا! ان مستقبل کے معماروں کے خواب ٹوٹنے نہ دیں، بلوچستان کے نئے میڈیکل کالجوں (جھالاوان،مکران، لورالائی) کی ایڈمیشن لسٹ جلد آویزاں کر کے ان کا مستقبل بچائیں۔