|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2019

ملک ایک طویل عرصہ کے بعد جمہوریت کی طرف گامزن ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ گزشتہ دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی، تیسری حکومت پی ٹی آئی کی بنی ہے جو جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ جاری ہے، البتہ یہ بات الگ ہے کہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے نظام پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اگر سیاست دان ذاتی عناد واختلافات سے بالاتر ہوکرقانون کی عملداری کو یقینی بناتے تو آج ایوان میں چور،ڈاکو، کرپٹ کے نعرے سننے کو نہیں ملتے، جمہوریت کے اس تیسرے دور میں بھی یہ تاثر مل رہا ہے کہ سیاستدان ہی قومی خزانے کو لوٹتے آئے ہیں اور اس کے قصور وار بھی یہی جماعتیں ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف سنگین الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو جیل تک پہنچایا، شاید ہی کسی نے اپنے دور حکومت میں اداروں کوسیاست میں گھیسٹتے ہوئے مخالفین کے خلاف استعمال نہ کیا ہو، ایک دوسرے کے وزراء اعظم کی رخصتی پرمخالفین جماعتوں کے رہنماؤں سے لیکر کارکنوں تک نے شادیانے بجاتے ہوئے سڑکوں پر رقص کے ساتھ مٹھائیاں تقسیم کیں جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا اور ملک سے کرپشن، بدعنوانی کا اب ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا اور ملک کے تمام مسائل حل ہوگئے۔

بدقسمتی سے انہی سیاسی رویوں کی وجہ سے ہر دوسرا سیاستدان چور اور ڈاکو نظر آنے لگا ہے جبکہ عوام بھی یہ بات پر باور کرنے لگی ہے کہ ملک میں کرپشن کو پروان چڑھانے میں سیاستدانوں کا کلیدی کردار ہے جس کی وجہ سے ملک کا دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے اب شور مچایاجارہا ہے کہ سیاسی انتقام کے طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سزا دی جارہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ماضی میں بھی اسی طرح سے مخالفین کو دبایا جاتا رہا ہے، بہرحال حکمران اگر سیاست میں اداروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال نہ کرتے اور بہترطرز حکمرانی کے ذریعے عوامی مفادمیں فیصلے کرتے تو آج ملک کی صورتحال یہ نہ ہوتی کہ عوام اس قدر مہنگائی کی چکی میں پس کر دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں یہ سب کچھ سیاستدانوں کا ہی کیا دھرا ہے۔

سیاستدانوں کیلئے حکمرانی چند عرصہ کیلئے ہوتی ہے جس میں وہ اپنا وقار اور عزت بڑھاتے ہیں تاکہ جب ان کی مدت پوری ہوجائے تو عوام کے سامنے سرخرو ہوکر جائیں مگر سیاستدانوں کو ہمیشہ ہوش تب آتا ہے جب ان کی باری ختم ہوتی ہے۔ ملک میں کرپشن صرف سیاستدان نہیں کرتے بلکہ اس میں اہم کردار ان آفیسران کا ہوتا ہے جو عہدِ حاضر کے حکمرانوں کو کرپشن کے گُر اور طریقے سکھاتے ہیں،ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ آئے روز حکمران، خصوصاً سرکاری ملازمین بیانات دیتے رہتے تھے کہ فلاں شخص نے سرکاری خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا۔ ان بیانات کا مقصد ملک کے اندر جمہوری اداروں اور نظام کو کمزور کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

اس کا مقصد منتخب حکمرانوں کے اثر و رسوخ کو کم سے کم کرنا اور سرکاری ملازمین کو ریاستی معاملات میں اعلیٰ ترین کردار دینا شامل تھا۔ سرکاری ملازمین کے بیانات پڑھنے کے بعد یہ واضح تاثردیا جاتا کہ ملک میں آئین کی بالادستی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ہی منتخب عوامی نمائندے اس ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر وہ نہیں بدل سکتے تو کون بدلے گا۔ جہاں تک عوامی رائے کا تعلق ہے اس کے مطابق ملک کے صرف ایک یا دو فیصد سرکاری ملازمین کرپٹ نہیں ہیں۔ کرپشن سب سے زیادہ سرکاری ملازمین میں ہے۔ جب تک اس کا سدباب نہیں ہوتا ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

موجودہ حکومت سے یہی توقع ہے کہ جو بھی سرکاری ملازمین کرپشن میں ملوث ہیں ان کا بھی احتساب کیاجائے تاکہ قانون سب کیلئے برابر ہو اور اس تاثر کی نفی ہو کہ سیاستدانوں کے خلاف ہونے والی کارروائی انتقامی ہے بلکہ ایک واضح پیغام جائے کہ ملک کے اندر قانون سب کیلئے برابر ہے۔نیز ملک کی ترقی صرف بہترین طرز حکمرانی سے ہی ممکن ہے جس کا چلن سیاستدانوں کوڈالنا ہوگا تب جاکر حقیقی تبدیلی آئے گی اور یہی ایک راستہ ہے جو ملک کو خوشحالی کی طرف لے جائے گا۔