|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2019

بلوچستان کو ترقی دینے کے متعلق ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ہمیشہ بڑے دعوے کیے ہیں۔ حکمران جماعت یا اپوزیشن کا بیانیہ ایک ہی رہا ہے کہ بلوچستان ہمارا معاشی شہ رگ ہے قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے جو آنے والے وقت میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔بے پناہ معدنی وسائل کے باوجود غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس اہم صوبہ کو پسماندہ رکھا گیا مگر اب بڑی تبدیلی آئے گی یہاں سڑکیں، بجلی گھر، صنعتیں، ائیرپورٹ، جدید ریلوے نظام، اعلیٰ ٹرانسپورٹ سروس سمیت وہ تمام سہولیات فراہم کی جائینگی جو شایدملک کے کسی صوبہ کو پہلے نہ دیا گیا ہو اور بڑے پیکجز کا بھی اعلان کیا جاتا ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسب روایت یہ محض دعوے ہی ثابت ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔بلوچستان ایک وسیع صوبہ ہے اور اس کی آبادی بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے اس لئے اس کی ترقی کیلئے مؤثر بلدیاتی نظام ہی واحد حل ہے جس پر بارہا توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے مگر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت کے دوران بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے ہوئے تھے مگر بلدیاتی ادارے مکمل بے اختیار دکھائی دیئے حالانکہ اس دوران تین وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے تینوں نے اپنے ادوار میں بلدیاتی اداروں کو فعال اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے وعدے کئے مگرنتائج سامنے ہیں کہ مسائل جوں کہ توں اپنی جگہ موجود ہیں۔

بلوچستان میں بلدیاتی اداروں کے غیر فعال ہونے کے خلاف بلدیاتی نمائندگان نے ہر بار اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا مگر اسے خاطر میں نہیں لایاگیا۔ کوئٹہ میں بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی کا تاثر کافی دیکھنے کو ملا کیونکہ جس طرح سے انہوں نے کوئٹہ پیکج کا ڈھول پیٹا کہ شہر کی رونق واپس لوٹ آئے گی۔

کوئٹہ میٹرو پولیٹن کے میئر نے سب سے پہلے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے کوئٹہ کے قدیم گوشت مارکیٹ کو گراکر اس کی جگہ پارکنگ پلازہ، تفریح پارک بنانے کے عزم کا اظہار کیا لیکن پارکنگ پلازہ تعمیر تو نہیں ہوسکا، گوشت مارکیٹ کھنڈرات میں تبدیل ہوکر رہ گیا،اس عمل کے ساتھ غریب قصائی درپدر ہوگئے اور ساتھ ہی شہریوں کی مشکلات بھی بڑھ گئیں۔

بلدیاتی اداروں کی غیرفعالیت کی وجہ سے کوئٹہ جو صوبائی دارالحکومت کہلاتا ہے، مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ سیوریج نظام تو یہاں سرے سے ہی موجود نہیں۔صفائی کی صورتحال ابتر، غیر قانونی پارکنگز، بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی، شہر میں بڑے بڑے شورومز کی موجودگی یہ پوری صورتحال بیڈ گورننس کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب بلدیاتی نمائندوں کی مدت ختم ہونے لگی تومیئر اور ڈپٹی میئر نے اپنے بے اختیار ہونے اور کاموں میں مداخلت کارونارویا۔

بلدیاتی انتخابات کے بعد بڑی امیدکی جارہی تھی کہ مقامی نمائندوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ان تمام مسائل کا خاتمہ کیاجائے گامگر مسائل مزید گھمبیر شکل اختیار کرگئے۔کوئٹہ شہر میں آج بھی بڑے بڑے شورومزموجود ہیں، بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی بھی جاری ہے اور اس غیر قانونی عمل کے پیچھے بااثر شخصیات کا ہاتھ ہے اس بات کا انکشاف خود کوئٹہ کے میئر وڈپٹی میئر کرچکے ہیں اس کے باوجود حکومت نے ان پر ہاتھ نہیں ڈالا۔

قانون کی بالادستی کے بغیر کسی صورت بھی ترقی وخوشحالی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا، آج بھی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایسی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے، عمارتوں کے نقشوں کو پاس کرانے میں میٹرو پولیٹن کے چند آفیسران بھی شامل ہیں مگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی حالانکہ یہ انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے خدانخواستہ کوئٹہ شہر میں زلزلہ آیا تو بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے پھر اس کی ذمہ داری کون اپنے سر لے گا۔

اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اس عمل کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے، سانحات کے بعد کمیشن کی تشکیل اور نوٹس بے معنی ہوں گے کیونکہ عوام کی جان ومال کی حفاظت حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری ہے۔ جس کوئٹہ پیکج کا شوشا ماضی میں زور وشور سے چھوڑا گیااس پر ماضی کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی، موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ شہر میں سڑکوں کی تعمیر، غیر قانونی پارکنگز کا خاتمہ، پارکنگ پلازوں کی تعمیر، انڈرپاسزاور فلائی اوور جیسے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان منصوبوں پر جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کیاجائے تاکہ کوئٹہ شہر میں موجود بعض مسائل حل ہوسکیں۔

اور اس کے ساتھ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں بلدیاتی اداروں کومکمل فعال کیاجائے گا کیونکہ بلوچستان کے شہری ودیہی علاقوں کی ترقی صرف اس وقت ممکن ہے جب مقامی نمائندوں کو مکمل اختیارات سمیت برائے راست فنڈز مہیا کئے جائینگے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے علاقوں کے مسائل حل کرسکیں اور کوئٹہ شہر کے معاملات پر صوبائی حکومت خود خاص توجہ دے۔

کیونکہ ماضی میں سیاسی مصلحت پسندی کی وجہ سے دارالخلافہ کے معاملات کو اپنے سیاسی حلیفوں کے ہاتھ سونپا گیا اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی لہٰذا اس روایت کو ختم کرتے ہوئے عوامی مفادمیں فیصلے کئے جائیں تاکہ کوئٹہ میں شہری سہولیات کی فراہمی یقینی ہوسکے اور گڈگورننس کی مثال قائم کی جاسکے۔