سڑکوں کے آس پاس بیلچہ اور کدال لیے کھڑے یہ لوگ آخر کون اور کس کے منتظر ہیں؟ جب سرمایہ دار کی گاڑی ان کے قریب آکر رکتی ہے تو یہ سب گاڑی کو گھیر کر اپنے آپ کو پیش کرنے لگتے ہیں۔۔ تو ایسے موقع پر ہوتا کیا ہے۔۔ بس ہونا کیا ہے کہ سرمایہ دار اس مزدور کا انتخاب کرتا ہے جو بہت ہی کم اجرت پر پوری دن مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو۔ ان کی آنکھوں میں سوائے عسرت کے اور کچھ نہیں دکھا ئی دیتی۔
یہ دھڑکتے دل کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں بسا اوقات بجھتے ارمانوں کے ساتھ خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ جب کچھ پیسہ ہاتھ آجائے تو رقم جیب میں ڈال کر خوشی خوشی گھر کا راستہ لیتے ہیں راہوں کے منتظر اپنے انہیں دیکھتے ہی خوشی سے کھل اٹھتے ہیں آخر یہ کون لوگ ہیں۔۔ یہ محنت کش لوگ ہیں۔۔ ان کی زندگی کا پہیہ روزانہ کی محنت و مشقت سے چلتا ہے۔ ان کی مجبوری سرمایہ دار کو سرمایہ کے اضافے میں مدد دیتی ہے۔
پسینہ مزدور کا اور کمائی سرمایہ دار کا۔ المناک خبر یہ ہے کہ ڈیگاری کے کوئلے کان میں آگ لگنے سے نو کان کن جاں بحق جبکہ ایک شدید زخمی حالت میں سول ہسپتا ل کوئٹہ منتقل کیا گیا۔ اخباری ذرائع کے مطابق یہ واقعہ کان کے اندر بجلی تاروں کے شارٹ سرکٹ سے پیش آیا۔ آگ لگ گئی اور کان دھویں سے بھر گیا۔ 4500میٹر گہرا ہونے کی وجہ سے کان کنوں کو باہر آنے موقع نہ دیا۔ بلوچستان میں کوئلہ کی کانیں غریب طبقات کو گھر کا چولہا جلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ایک اندازے کے مطابق بلوچستان بھر میں 25ہزار کے آس پاس کوئلہ کی کانیں ہیں۔ جن میں 70ہزار کے قریب کان کن کام کرتے ہیں۔
کان کنی کا کام جان لیوا تصور کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے مقامی لوگ مزدوری کے لیے کان کنی کا شعبہ اختیار نہیں کرتے، اکثریت کا تعلق خیبرپختونخواہ سے بتایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال بلوچستان کی کوئلہ کے کانوں میں مرنے والوں کی تعداد 93 بتائی گئی۔ جبکہ رواں سال مرنے والوں کی تعداد23سے زائد بتائی جاتی ہے۔ کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات کی بنیادی وجہ محنت کشوں کے لیے حفاظتی انتظامات کا نہ ہونا ہے۔
کوئلہ کا یہ کاروبار حکومتی اداروں، ٹھیکداروں اور پیٹی ٹھیکیداروں کے اشتراک سے جاری ہے خبریں رپورٹ ہونے کے باوجود ان ٹھیکیداروں کے خلاف کاروائی نہیں ہوتی۔ کاروائی نہ کرنے کی بنیادی وجہ ٹھیکیداروں کا بااثر ہونا ہے۔ جو محنت کش جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان کے لواحقین کی دکھوں کا مداوا یہ ایک یا دو لاکھ کی اجرت کی صورت میں کرکے اپنی جان چھڑاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے لیکن اس پر قانونی اور آئینی طریقوں سے نمٹا نہیں جاتا۔
تعلیمی کیرئیر کے دوران مالی مشکلات نے مجھے مختلف کارخانوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور کیا تو حالات نے مجھے مزدوروں کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کاموقع فراہم کیا۔کمپنی تک رسائی حاصل کرنے میں میرے ایک قریبی رشتہ دار معاون ثابت ہوئے، مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ محنت مزدوری کے لیے بھی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ شروعات میں نے ڈرپ بنانے والی کمپنی (ZAFA) سے کیا۔
لیکن وہاں کام کرنے کا دورانیہ 12گھنٹے کا تھا۔ تعلیمی سرگرمیوں کے باعث میں نے اپنا مدعا ٹھیکیدار کے سامنے رکھا تو انہوں نے میری اک بھی نہیں سنی اور دس دن کام کرنے کے بعد مجبوراً مجھے اس کمپنی کو خیرباد کہنا پڑا۔ کمپنی میں کام کرتے ہوئے مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہوا کہ شفٹ انچارج مزدوروں سے مکمل طور پر کام لیتے ہیں مگر محنت کے حساب سے انہیں اجرت ادا نہیں دی جاتی۔
کمپنی مالکان یا حکومتی اداروں تک (جو مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے جا چکے ہیں) مزدوروں کی رسائی نہیں ہوتی ٹھیکیدار مزدوروں کے مطالبات پر کان دھرتے نہیں۔ نہ ہی ان کی سیفٹی کا خیال رکھا جاتا ہے نہ ہی ان کے لیے میڈیکل الاؤنسز موجود ہیں اور نہ ہی ان کی بچوں کے لیے تعلیم کا کوئی ذریعہ۔ دوسری کمپنی جسے میں نے جوائن کیا وہ تھی P&G(پراکٹر اینڈ گیمبل پاکستان)۔ یہاں دو سیکشن تھے ایک سیکشن میں سیف گارڈ صابن کا پروڈکٹ بنتا تھا جسے اندرون اور بیرون ملک سپلائی کیا جاتا تھا۔
ایک اور سیکشن پیمبر پیکنگ کی تھی۔ میری بھرتی پیمپر پیکنگ والی سیکشن میں ہوگئی۔یہاں آٹھ آٹھ گھنٹے پر مشتمل تین تین شفٹ ہوا کرتے تھے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ اگلا شفٹ نہ آنے کی وجہ سے آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سولہ گھنٹے میں تبدیل ہوتی تھی تو یہ کسی آزمائش سے کم نہیں تھی۔یہ مشینیں سرمایہ داروں کا سرمایہ مضبوط کرنے کے لیے دن رات چلتے تھے۔ کبھی اس طرح ہوتا کہ ہفتے بھر کام نہیں ہوتا۔ ایک بار ہوا یوں کہ ایک ماہ تک نائٹ شفٹ میں مسلسل کام کرتے کرتے میری صحت اتنی خراب ہوگئی کہ پندرہ دن تک بستر پر رہ کر گزارنا پڑا۔ پندرہ دن کی بیماری میرے تین ماہ کی دیہاڑی کھا گئی۔
کمپنی کا نظام ٹھیکیداروں کے بل بوتے پر چل رہا تھا۔ یہ مزدوروں کی بولی لگاتے تھے۔ اور مزدوروں کے لیے حاصل ہونے والی رقم کا قلیل حصہ ان کی دیہاڑی پر لگاتے تھے۔ کوئی مزدور بیمار ہوا یا زخمی اس کا علاج ٹھیکیدار کو نہیں بلکہ مزدور کو خود کرنا پڑتا تھا۔ مزدوروں کے سہانے خواب ہوا کرتے تھے۔
گھر بسانے کا خواب، شادی کرنے کا خواب، بہن بھائیوں کو پڑھانے کا خواب وغیرہ وغیرہ،، ان کی باتیں سنتے ہوئے سوچ میں پڑ جاتا دیہاڑی کی کمائی سے بھلا ان خوابوں کی تکمیل کیسے ممکن ہوگی۔ تیسری اور آخری کمپنی جس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہ تھا BGL(بلوچستان گلاس لمیٹڈ)۔ اس کمپنی میں کوکاکولا، پیپسی، ڈیو، مرنڈا اور دیگر مشروبات کی بوتلیں تیار ہوتی تھیں اور ان پر مارک لگایا جاتا تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جس سیکشن میں مجھے بٹھا دیا گیا وہ سارٹنگ کا سیکشن کہلاتا تھا جہاں پروڈکٹ کا مارک اپ چیک کیا جاتا تھا۔مجھے سارٹنگ کے معنی نہیں آئے میری طرح دیگر مزدور بھی اس اصطلاح سے لاعلم ہی رہے۔
سارٹنگ کا کام کرتے کرتے اور بوتلوں پر مسلسل نظر رکھنے سے میری آنکھیں خراب اور شدید گرمی سے جسم پر دانے نکل آنے لگے اور کینٹین کی ناقص غذا نے معدے کی تکلیف سے دوچار کر دیا۔کمپنی کا دوسرا سیکشن دوزخ کہلاتا تھا اس دوزخ کی آگ میں بوتلیں تیار ہو کر آتی تھیں۔سیکشن میں کام کرنے کی جرات کسی کو نہیں ہوتی تھی کام کرنے والے سارے پٹھان تھے۔ ٹھیکیداری نظام تھا۔ سیاسی بنیاد پر ٹھیکے دئیے جاتے تھے اور یہ ٹھیکیدار مزدوروں کو بھرتی کرکے ان کی کمائی کا زیادہ حصہ بٹورتے تھے۔ بدلے میں ان کو کم اجرت ادا کی جاتی تھی۔
سیفٹی کا خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی ان کی صحت کا خیال رکھا جاتا۔ بے شمار مزدور ایسے تھے جو سال بھر اپنے گھروں سے دور رہتے تھے۔میں ان سے سوال کرتا کہ گھر کیوں نہیں جاتے تو ان کی طرف سے یہی جواب آتا کہ پیسہ بچتا کہاں ہے کہ گھر چلے جائیں۔کمپنی چھوڑنے کا وقت آیا تو منشی آخری ماہ کاا جرت دینے سے انکاری ہوا۔ اب کہاں جاکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ معاملہ ہی چھوڑ دیا۔
مزدوروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے چند چیزیں ذہن نشین ہوگئیں کہ ملکی نظام انہی کے بل بوتے پر چل رہا ہے مگر اجرت کے معاملے میں یہ بہت کم معاوضہ پاتے ہیں۔ ان کے حق میں ہر سال اعلانات کیے جاتے ہیں مگر ان اعلانات پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور نہ ہی چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار موجود ہے جو ان بااثر ٹھیکیداروں اور کمپنی مالکان کے خلاف کاروائی کرے۔ میں نے جتنا عرصہ کمپنی کے اندر گزارا حکومتی نمائندہ یا لیبر ڈیپارٹمنٹ کے عملے کو ایک بار اپنے درمیان نہیں پایا۔
ڈیگاری میں ہونے والے واقعے کی گوکہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے کر تحقیقات کا حکم دے دیا ہے مگر یہ محض وقتی طور زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے گڈانی شپ یارڈ میں جھلس کر مرجانے والے مزدوروں کے ساتھ انصاف ہوا، 2012کو کراچی میں ملبوسات کی فیکٹری میں آگ سے جل جانے والے 260افراد کو انصاف ملا،نہیں نا۔ مزدور روز مرتے ہیں ان کی موت کا ماتم کون کرے؟ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ دس مزدور مرگئے آپ کی نظامِ غربت نے اور لاکھوں مزدور جنم دینے ہیں تو اس پر اشک شوئی کیسی۔