|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2019

ماضی میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نہ جانے کتنے کیمپ لگے، کتنے کیمپ زمینی خداؤں کی زد میں آکر اکھڑ گئے، کتنے لوگ کیمپوں کی ضرورت بنے، کتنی وعدے وعیدیں ہوئیں، کتنے لوگوں کو بھوک ہڑتال پہ بیٹھنا پڑا،نہ جانے کتنے لوگوں کو حکومتی یقین دہانی پر جوس پی کر احتجاجی کیمپ ختم کرنا پڑا۔ کیمپ لگے،ختم ہوئے۔ کچھ کے مسائل ختم ہوئے بہت سوں کے ابھی تک باقی ہیں۔ یہ سب منظرنامے کوئٹہ پریس کلب نے اپنی آنکھوں میں قید کر لیے۔ پریس کلب کے سامنے اور آس پاس اس وقت چار کیمپ قائم ہیں قدیم کیمپ لاپتہ افراد کے لیے لگائے جانے والے ماما قدیر کی ہے۔

روز تصویروں کا انبار لیے کیمپ میں بیٹھتا ہے اور شام ہوتے ہی چلا جاتا ہے۔ لوگ آتے ہیں خیر خیریت دریافت کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ بیٹھک لگائے انہیں ایک زمانہ ہوگیا، اب یہ عادی ہو چکے ہیں یہ خاموش احتجاج نہ جانے کب تھلک چلے اور کب پایہ تکمیل تک پہنچے مگر ایک بات تو یقینی ہے کہ کوئٹہ پریس کلب اور یہ کیمپ جیون ساتھی بن چکے ہوں۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بائیں جانب واقع دوسری کیمپ بے روزگار انجینئرز کی ہے۔

بہت سے مطالبات کے ساتھ سب سے بڑا مطالبہ ان کا روزگار ہے۔ بلوچستان کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ اس میں جتنی انجینئرنگ کی جائے اتنا ہی کم مگر نہ جانے ڈگری ہاتھ میں لیے نوجوان اب تک بے روزگار کیوں ہیں۔ حسب معمول صبح آتے ہیں ایک دوسرے کو سنتے اور سناتے ہیں شام ہوتے ہی واپس چلے جاتے ہیں اپوزیشن اراکین ان کے پاس آئے، حکومتی اراکین آئے۔ یقین دہانی کرائی مگر مسئلہ حل نہیں ہو پایا اور نہ ہی یہ احتجاج کا دامن چھوڑنے کو تیار ہیں۔

تیسری کیمپ بے روزگار فارماسسٹس کا ہے۔ یونیورسٹی سے فارغ یہ نوجوان مستقبل کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں حکومت نے بے روزگار وٹنری ڈاکٹرز کے لیے روزگار کی فراہمی کا اعلان تو کیا لیکن فارماسسٹس رہ گئے،نام نہ دیکھ کر فارماسسٹس میدان میں آگئے اور حکومت سے ”روزگار دو روزگار دو“ کا مطالبہ کرنے لگے۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کا لینا دینا دواؤں سے ہے، ادویات کے فارمولوں سے ہے، ادویات کی کمپنیوں سے ہے، صحت کے اداروں سے ہے، ادویات کے فارمولے دیکھتے ہیں ان کی چیک اینڈ بیلنس کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جس مقدار میں بلوچستان میں بیماریاں تخلیق ہو رہی ہیں اور دوائیاں مارکیٹ میں آرہی ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک بھی فارماسسٹ بے روزگار نہ ہوتا مگر کیا کیا جائے حکومتِ بلوچستان کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی ریونیو پیدا کرنے کا کوئی نظام، نہ ہی ایسے مشیر جو اسے مشورہ دیں کہ ریونیو جنریٹ کس طرح کی جاتی ہے میں تو معیشت کی الف ب سے واقف نہیں ہوں ورنہ حکومت کو ضرور مشورہ دیتا کہ دس یا بیس ہزار ملازمتوں کا پیدا کرنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا انہیں نظر آرہا ہے۔

آخری کیمپ میڈیکل طلبہ کی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ حکومتیں طلباء تنظیموں کے زیر اثر تھے۔ تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کی ذمہ داری طلبہ تنظیموں پر عائد ہوتی تھی تعلیم دشمن جیسے القابات ان کے حصے میں آتے تھے۔ اب تمام تنظیمیں غیر مؤثر ہو چکی ہیں وہ طلباء تنظیمیں جو کسی زمانے میں یونیورسٹی اور کالج لیول مسائل پر سیاست کیا کرتے تھے، سیاسی شعور دینے کا کام کرتے تھے اب وہ مکمل طور پر آؤٹ ہو چکے ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان پڑھنا چاہتے ہیں صوبے کی بہتری کے لیے کچھ کر نا چاہتے ہیں مگر یہ کون نوجوان ہیں جن کے مسائل ان کی دہلیز پر حل نہیں ہوپاتے اور انہیں احتجاج پر آمادہ ہونا پڑتا ہے؟میڈیکل کالجز کے طلبہ ہیں۔ متاثرین آل میڈیکل اسٹوڈنٹس کے چھتری تلے ان کا مطالبہ سادہ سا ہے کہ میرٹ لسٹ آویزاں کی جائے اور ان کا تعلیمی سال بچایا جائے۔ یہ اپنا مؤقف سنانے آئے ہیں۔

حکومتی نمائندگان ان کے پاس آتے ہیں طفل تسلیاں دے کر چلے جاتے ہیں مگر ان کا مسئلہ حل نہیں کرپاتے۔ بولان میڈیکل کالج بلوچستان کا واحد میڈیکل کالج ہوا کرتا تھا۔ سن 1972کو اس کا قیام عمل میں لایا گیا،قیام سے لے کر 2018تک یہ ادارہ بلوچستان یونیورسٹی کا ذیلی ادارہ ہوا کرتا تھا۔ داخلے اور امتحانات یونیورسٹی کی زیر نگرانی ہوا کرتے تھے۔

گزشتہ سال ایک ایکٹ کے تحت اسے یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا جو اب ”بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنس“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب یہ مکمل ادارے کا شناخت پا چکا ہے اسی ادارے کی چھتری تلے اب تین اور ادارے وجود میں آچکے ہیں جن میں لورالائی میڈکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج اور کیچ میڈیکل کالج شامل ہیں۔ تینوں کالجز میں کلاسز کا باقاعدہ آغاز گزشتہ سال ہو چکا ہے۔

سیشن 2018-19کے لیے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کرایا گیا تو 5000کے قریب امیدواروں نے حصہ لیا، انٹری ٹیسٹ کے بعد بولان میڈیکل کالج نے 223امیدواروں کا حتمی فہرست جاری کرکے کلاسز کا آغاز کر دیا۔ مگر تینوں نئے میڈیکل کالجز کے 150طلبہ کی میرٹ لسٹ تاحال آویزاں نہیں کی جارہی اور کلاسز کا آغاز یہ کہہ کر نہیں کیا جا رہا کہ مذکورہ کالجز پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC)میں رجسٹرڈ نہیں کرائے گئے ہیں۔

مستقبل کے لیے پریشان ان طلبہ کو اس وقت غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ میرٹ لسٹ کے منتظر 150طلبہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا پہلا سال ضائع نہ ہو اس کے لیے انہوں نے کیمپ کے اندر ہی کلاسز کا اہتمام کر رکھا ہے جسے بولان میڈیکل کالجز سے سینیئر طلبہ آکر پڑھاتے ہیں اور ان کی دلجوئی کرتے ہیں مگر مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ کیمپ میں موجود ایک طالبعلم غلام مصطفیٰ ہیں سبی کی چھ نشستوں کے لیے اپنی جگہ تو بنا چکے ہیں مگر داخلے سے محروم ہیں۔

ان کا کہنا تھا”ہمارا رزلٹ روکا گیا ہے جبکہ ایک اور انٹری ٹیسٹ 25اگست کو آرہا ہے ہم شش و پنج میں ہیں کہ ہمیں داخلہ گزشتہ نتائج کی بنیاد پر ملے گا یا ہمیں ازسر نو ٹیسٹ دینا پڑے گا اگر ایسا ہوا تو ہمارے دو سال ضائع ہوجائیں گے“۔ کیمپ میں موجود متاثرہ طلبہ نے بتایا کہ ایک طالبعلم طفیل نے میرٹ لسٹ جاری نہ کرنے اور حکومتی نمائندوں کے جھوٹے وعدے وعیدوں سے تنگ آکر خودکشی کی کوشش کی جسے اس کے دیگر ساتھیوں نے بچا لیا۔

انہوں نے کہا کہ حالت اب یہاں تک پہنچی ہے کہ نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ہم نے کوشش کی کہ وائس چانسلر بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنس سے ان کا مؤقف لیں مگر ہمیں بتایا گیا کہ موصوف نجی مصروفیات کے پیش نظر بیرون ملک ہیں رابطہ کرنے اور ان کا مؤقف لینے سے ہم قاصر رہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زونل جنرل سیکرٹری اشفاق بلوچ کا کہنا ہے کہ گورنر سے ملاقات کے دوران طلبہ اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھ چکے ہیں تو اُن کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ نئے کالجز رجسٹر نہیں ہیں، اس لیے انہیں داخلہ نہیں دیا جا رہا، اگر ایسا ہے تو پچھلے بیچ کو داخلہ کیسے مل گیا اورنئے انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیسے ہوا۔ یہ سب بہانے ہیں“۔ تینوں کالجز ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور میں قائم ہوئے۔ تعلیم کی طرف ایک قدم آگے بڑھانے کے لیے اسے سیاسی کریڈٹ بھی قرار دیا جا رہا تھا۔

تمام کالجز کے ڈھانچے تیار کیے گئے اور کلاسز کا سلسلہ تو شروع کیا گیا اصل کام رجسٹریشن کا تھا اسے پس پشت ڈالا گیا۔ موجودہ صورتحال نے تینوں کالجز کے مستقبل کے حوالے سے سوالات اٹھانے شروع کردئیے ہیں۔ بلوچستان کو اس وقت ڈاکٹرز کی قلت کا سامنا ہے۔ موجودہ ڈاکٹرز کی تعداد بلوچستان کی آبادی کو کور کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے اس صورتحال میں میڈیکل کالجز میں تعلیمی سرگرمیاں رکوانا بلوچستان کے لیے صحت دشمن سرگرمی ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب طویل دورانیہ گزر جانے کے بعد بلوچستان کے تینوں کالجز کو رجسٹر نہ کرا کر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے بلوچستان کے ساتھ اپنی تعلیم دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبے کے پاس آگیا ہے موجودہ حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن کے لیے صوبائی سطح پر طریقہ کار وضع کرے بلکہ وائس چانسلر بولان یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنس کو حتمی فہرست آویزاں کرنے اور نئے بیچ کے کلاسز کے اجراء کے لیے احکامات جاری کرے۔