وہ تعلیم جو ہم اپنے تعلیمی اداروں میں دے رہے ہیں وہ بالکل بھی کافی نہیں ہے کیونکہ نہ تو یہ ہماری سوچ بدل رہی ہے اور نہ ہی ہمارے ذہن کو وسعت عطا کر رہی ہے۔ ہم تعلیم حاصل کر کے بھی اسی پرانی اور بے بنیاد سوچ اور نظریہ کے حامی ہیں جسے بدل جانا چاہئے تھا۔ ہماری عورتیں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر اسی ساس بہو کے نظریے کے ساتھ چلتی ہیں اور وہیں بیٹھ کر ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اور ہمارے مرد آپ انہیں دنیا کے کسی بھی ادارے میں بھیج دو، وہ وہی گالیوں بھری زبان لیے پھرتے ہونگے اور وہی گھورنے والی نظریں جمائے کہیں بیٹھے ہونگے۔ کیونکہ ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم جیسے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی باہر نکل جاتے ہیں ذرا برابر فرق لیے بغیر۔
ہاں بالکل تعلیم بہتر اور مہذب زندگی گزارنے کیلئے لازم و ملزوم ہے کیونکہ یہ ہمیں موقع دیتی ہے اپنے آپ کو بہتر اور قابل بنانے کا،اپنے آپ کو سدھارنے کا مگر جب ہمارا مکمل رجحان نمبروں اور صرف نمبروں پر ہوگا تو پھر یہ تعلیم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے میرا میڑک اور ایف ایس سی کا دور جب ہمارا مکمل رجحان صرف اور صرف نمبروں پر تھا مگر ایف ایس سی کے بعد جب میرے سپر نمبروں نے مجھے وہیں لا پھینکا جہاں عام درجے کے نمبروں والے طلباء تھے۔
اور جب انٹری ٹیسٹ نے مجھے نکال باہر کیا تو صدمے نے مجھے مار دیا حالانکہ اگر پوچھا جائے تو میرا بالکل بھی ڈاکٹر والا مائنڈ سیٹ نہیں تھا مجھے تو انجکشن دیکھ کر ہی ہول اٹھنے لگتے کہ الٰہی ڈاکٹر مجھے انجکشن نہ لگائے- اس چکر میں مابدولت نے بچپن میں کئی ڈاکٹروں سے لڑائیاں بھی کی ہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں میڑک کے بعد اگر اچھے نمبر ہیں تو لڑکی نے بیالوجی ہی رکھنی ہے اور ڈاکٹر ہی بننا ہے۔ گھر والوں نے پھر سارے خاندان کو بتانا جو ہوتا ہے کہ ہماری بیٹی ڈاکٹر بن رہی ہے- پر اس نے کیا ڈاکٹر بننا ہے جو خون دیکھ کر بے ہوش ہو جائے۔
میرے تمام بچپن کے دوران میری تخلیقی صلاحیت بہت اچھی رہی ہے- وہاں نقش و نگار بنانا ہو، تصویر بنانی ہو، چیزیں ترتیب دینا ہو اور سجانا ہو، مہندی کے ڈیزائن ہوں، کھیل کود ہو اسماء آگے آگے مگر نمبروں کی دوڑ نے ایسا گھمایا کہ سب بھول بھال گئے اور تخلیق کاری کچرے کے ڈبے میں چلی گئی اور ہم بس دیکھتے رہ گئے۔ اس وجہ سے ڈپریشن سے بھی گزرنا پڑا کیونکہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ انٹری ٹیسٹ دوبارہ دیا مگر جب ذہن ہی نہ ملتا ہو تو وہ کیسے ہونا تھا اور اس سب سے نکلنے میں مجھے عرصہ لگا تھا کیونکہ سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کس سمت جانا ہے۔
غصے میں آ کر کیمسٹری رکھ لی مگر اسے کرنا بھی آسان نہ تھا،مجھے سوچنے نئی نئی چیزیں بنانے اور تخلیق کرنے کا جنون رہا تھا جو کہیں کھو گیا تھا- میں نے لکھنا شروع کر دیا کیونکہ میرے پاس اور کچھ بچا ہی نہیں تھا کرنے کو۔ میں نے پھر سے اپنا سفر شروع کر دیا، اب مجھے خود کو کھوجنا تھا، پڑھنے کا شوق شروع سے تھا مگر اب ناول چھوٹ گئے اور شخصی ارتقاء کی کتابیں میری توجہ کا مرکز بن گئیں – ان دونوں میں نے موٹیوشنل گولیاں بھی بہت کھائی۔ اسی طرح یہ سفر جاری ہے اب میں ہر اس سرگرمی میں حصہ لینے کی بھرپور کوشش کرتی جو میرے آسانی کے دائرے کو توڑے کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے مگر چلتے رہنا اور سیکھتے رہنے ہی زندگی ہے۔زندگی کسی منزل کا نام نہیں بلکہ سفر ہے ایک مستقل سفر۔
مگر اب جو بھی ہو مجھے انہی مضامین کے ساتھ آگے چلنا ہے جو میں نے چنے چاہے غلطی سے کیونکہ ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں کہ جب آپ کا جب دل چاہے آپ مضامین بدل لو بی ایس کسی اور میں اور ماسٹرز کسی اور میں – اسی لیے ہمیں شروع سے ہی سوچ بچار کر کے فیصلہ کرنا چاہیے مگر افسوس یہ کہ ہمیں جب ہوش آتی تب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اب میڑک کے نتائج نکلے ہیں اور طلباء داخلے کی دوڑ میں ہیں جہاں انہیں اسی ڈاکٹر انجینئر کی لائن کا حصہ بنایا جائے گا جس کا ہم تھے۔ اس زمرے میں میری والدین اور بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو خود مضامین چننے دیں اور ان کی راہنمائی کریں تاکہ وہ اپنے ذہن کے مطابق مضامین چنیں جنہیں پڑھ کر انہیں خوشی بھی ہو اور وہ ڈگری کے علاوہ بھی کچھ سیکھ سکیں وگرنہ وہ سارا سال اپنے ذہن سے لڑتے رہیں گے پھر بھی مشکل سے کچھ پلے پڑنا پھر نمبروں کی دوڑ ہی رہے گی اور باقی سیکھنے کا موقع کیا ملنا –
کوئی سکوپ نہیں یہاں، بندہ اپنا سکوپ خود بناتا ہے۔ ڈیمانڈ اسی کی ہے جس میں قابلیت ہے،بہت سے طالبعلم کم نمبر لے کر بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، ان کی قابلیت ٹاپرز سے بھی زیادہ ہے اور کئی ٹاپرز ہیں انہیں خود اعتمادی سے بات کرنا بھی نہیں آتا۔ یہی ہمارے نظام کا مسئلہ ہے ہم ڈگریاں لے کر فارغ ہو جائیں گے مگر بات کرنا نہیں آئے گا، کسی سے ملنا نہیں آئے گا اور پھر یہ چیزیں اصل زندگی میں ہمیں زمین پر گراتی ہیں جب ہم پڑھ کر بھی کچھ نہیں سیکھ پاتے۔
اگر دو لوگ ہوں ایک معمولی تعلیم کے ساتھ مگر قابلیت سے بھرپور،کھلی ذہنیت اور واضح مقصد رکھتا ہو اور دوسری جانب والے نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی ہو مگر سوچ وہی پرانی اور فرسودہ رکھتا ہو نہ ہی کوئی واضح مقصد پاس ہو تو کون بہتر ہے یقینا پہلے والا جو قابلیت رکھتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے زندگی میں چیزوں کو کیسے لے کر چلنا ہے، لوگوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے اس سے سب خوش ہونگے مگر ایسا شخص جو ڈگریوں کے علاوہ کچھ نہیں رکھتا اس سے کون خوش ہو سکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہے تعلیم ڈگریاں لینے کے علاوہ اچھی اور اعلیٰ سوچ کے حصول کا نام بھی ہے۔ یہاں لوگ بیشمار ڈگریاں اور سرٹیفیکیٹ رکھتے ہونگے مگر اچھی سوچ سے محروم ہونگے اب ان کی ڈگریاں کس کھاتے میں ڈالی جائیں۔
ایدھی صاحب نے کیا خوب فرمایا تھا کہ” دنیا کو ان پڑھوں سے نہیں پڑھے لکھے جاہلوں سے خطرہ ہے۔” سولہ آنے سچی اور کھری بات ہے۔میں خود اپنی بات کروں تو سچ میں اتنا خطرہ ان پڑھوں سے نہیں محسوس ہوتا جتنا چھوٹی سوچ رکھنے والے پڑھے لکھوں سے ہوتا ہے۔ یہی وقت ہے جب ہم اپنے اوپر کام کر سکتے ہیں خود کو بہتری کی طرف لے جاسکتے جہاں ہماری سوچ کا زاویہ بدل سکتا ہے اور ارتقائی مراحل سے گزر کر اعلیٰ ذہنیت کی طرف سفر کرسکتے ہیں۔
اس سفر کیلئے میرے ایک استاد نے نصیحت کی تھی کہ اس نظام میں اپنی پہچان بنانے اور کچھ حاصل کرنے کے لیے اس نظام کے خلاف مزاحمت ہونی چاہیے اور برداشت رکھنی چاہیے تب ہی آپ سیکھ سکتے۔ اپنے مقصد پر نظر جمائے چلتے رہو سیکھتے رہو آخر منزل مل جائے گی۔ شارٹ کٹ نامی کوئی چیز یہاں کام نہیں کر سکتی بس سر جھکائے لگے رہو،بڑھتے رہو۔