|

وقتِ اشاعت :   July 26 – 2019

قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا کردار ہمیشہ سے بنیادی رہا ہے۔ اور یہ قانون فطرت بن چکا ہے کہ جس قوم نے تعلیم کے میدان میں ترقی کی دنیا کی حکمرانی کا حق بھی اسی کو عطا ہوا۔تعلیم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔تعلیم یافتہ قومیں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔قیام پاکستان کے بعد کئی عشروں تک تعلیم بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں رہی،جب ترجیحات میں شامل کی گئی تو نظام تعلیم کو تب سے اب تک بہتر نہیں کیا جا سکا۔

ہمارا تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار ہے۔ہمارا ملک اس وقت تعلیمی اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہے۔پاکستان میں شرح خواندگی صرف 58فیصد ہے، جبکہ بلوچستان میں یہ شرح خواندگی مزید کم ہو کر 41فیصد رہ جاتی ہے۔اس وقت پاکستان میں سکول جانے والی عمر کے 2کروڑ 28 لاکھ40ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں اور بلوچستان میں ان بچوں کی تعداد تقریباً 23 لاکھ ہے۔بلوچستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں لڑکیوں کی شرح زیادہ ہے۔ 5 سے 16 سال کی عمر کی 62 فیصد لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں لڑکیوں کے داخلے کی شرح 35 فیصد ہے۔ جوکہ ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے صرف 4 فیصد رہ جاتی ہے۔

جب ہم تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ، بلوچستان تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔مملکت خداداد پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں تعلیمی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے۔ بلوچستان کا تعلیمی معیار پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ خراب ہے۔دور دراز علاقوں میں تو تعلیمی اداروں کی عمارتیں جانوروں کی پرورش کیلئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلوچستان کی عوام کو تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیوں رکھا گیا تو اس کا جواب یہ ہی ہے کہ بلوچستان کی عوام میں شرح خواندگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے بنیادی حقوق کے لیے شعور اجاگر نہ ہو سکا۔جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے اور ہیں۔پاکستان میں تعلیم سمیت بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے لیے مختلف سماجی ادارے مصروف عمل ہیں ان ہی میں سے ایک تعلیم فاؤنڈیشن ہے۔

تعلیم فاؤنڈیشن کا قیام1989 میں پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے بلوچستان میں عمل میں لایا۔بلوچستان کے ہونہاروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ظفر اقبال بلوچستان کی عوام کامسیحا بن کر آئے۔بلوچستان کے انتہائی پسماندہ اضلاع کے غریب بچوں کو جدید تعلیم مہیا کرنے کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن نے ہر سطح پر جدو جہد کی۔تعلیم فاؤنڈیشن کے سکول، کوہلو،ژوب، قلعہ سیف اللہ،

مسلم باغ،لورالائی،پشین،مستونگ اورسوئی(ڈیرہ بگٹی) میں بچوں کو جدید تعلیم بذریعہ جدید ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں،خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن نے سوئی ڈیرہ بگٹی میں ووکیشنل ٹرینگ انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں لایا ہے،جبکہ سوئی کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے بھی تربیت فراہم کی جا رہی ہے جس میں کمپیوٹر کی ٹرینگ بھی شامل ہے۔

اس وقت تعلیم فاؤنڈیشن کے سکولوں سے فارغ ہو کر 12سو سے زائد بچے اعلیٰ تعلیم ملکی اور غیر ملکی جامعات میں حاصل کر رہے ہیں ان میں ڈاکٹر،انجینئر،بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت ہر شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔جبکہ اب تک تعلیم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے ووکیشنل ٹرینگ انسٹیٹیوٹ سے بھی سینکڑوں افرادہنر مند بن کر با عزت روزگار کر رہے ہیں۔

اس سب کا ذکر کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جس پوزیشن میں بھی ہیں، تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں،جو بچے سکولوں میں نہیں جاتے ان کے والدین میں شعور اجاگر کریں۔اور انفرادی طور پراگر کسی سکول میں کوئی بنیادی سہولت نہیں تو اس سہولت کی فراہمی کے لیے کوشش کریں۔ہمارے تعلیمی نظام میں بہت سارے نقائص ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام جدید خطوط پر استوار نہیں ہے۔

جدت ہی ایسی چیز ہے جو بچوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہے،اگربلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں تعلیم فاؤنڈیشن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیم فراہم کر رہی ہے تو ملک بھر کے پسماندہ علاقوں کے سکولوں میں بھی بچوں کو ڈیجیٹل انٹرایکٹیووائٹ بورڈ کے ذریعے تعلیم فراہم کی جانے چاہیے،تا کہ جو پاکستان میں اڑھائی کڑوربچے سکولوں میں نہیں جا رہے وہ سکولوں میں جانے کی جانب راغب ہوں۔

اب فاقی دارالحکومت کے دیہی علاقوں میں ہزاروں بچے سکولوں میں نہیں جا رہے،ان میں سے سینکڑوں بچوں کو تعلیم فاؤنڈیشن نے یونیسکو کے تعاون سے سکولوں میں داخل کروایا جن کو مفت سکول بیگ، یونیفارم اور سٹیشنری سمیت کھیلوں کی ٹول کٹس بھی فراہم کی گئی تا کہ وہ تعلیم یافتہ بن جائیں۔ فاؤنڈیشن نے وفاقی تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے تعلیم دینے کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے،ابتدائی طور پر یہ منصوبہ وفاقی نظامت تعلیمات کے آٹھ سکولوں میں شروع کر رکھا ہے جس میں سے چار دیہی اور چار شہری علاقوں کے سکولوں میں ڈیجیٹل بورڈ تنصیب کیے گے ہیں جبکہ مزید سکولوں میں بھی ڈیجیٹل بورڈ تنصیب کیے جائیں گے۔

ان بورڈز کی تنصیب کے بعد انرولمنٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔اب امید کی جاسکتی ہے کہ جواڑھائی کڑوربچے سکولوں میں نہیں جا رہے، موجودہ حکومت ان کو تعلیم دلوانے کے لیے عملی حکمت عملی مرتب کرے گی۔موجودہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے آؤٹ آف سکول چلڈرن کو سکولوں میں داخل کروانے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات لائق تحسین ہیں۔جب تک ہم تعلیم یافتہ قوم نہیں بنتے تب تک ہم مسائل کی دلدل میں پھنسے رہیں گے۔

اگر ہم نے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، تو تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر کے تعلیم کو پہلی ترجیح دینی ہوگی۔معیاری اور جدید تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے جو ہمارے آئین نے ہمیں دیا ہے۔آئیں ہم اپنے بنیادی حق کے لیے جدو جہد کریں،اور ڈاکٹر ظفر اقبال قادر کو اپنا آئیڈیل بنا کر ملک کے درو دراز اور پاسماندہ علاقوں کے بچوں کو تعلیم مہیا کرنے کے لیے جدو جہد کریں۔