|

وقتِ اشاعت :   July 27 – 2019

منان چوک جناح پر اخبارات اور کتابوں کا ایک چھوٹا سا دکان جان بک اسٹال ہوا کرتا تھا۔کتابوں کے ساتھ ساتھ یہ اسٹال دنیا بھر کی معلومات کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ اخبارات سے آنکھیں دو چار ہوتے ہی گاہک اسٹال کی جانب لپک پڑتے، سرخیاں چھان مارتے ہوئے جو اخبار پرکشش معلوم ہوتی وہ خریدار کے حصے میں آتا۔ اخبارات اور کتابوں کی جگہ اب وہاں ایک موبائل کمیونیکیشن سینٹر نے لی ہے۔

لوگ کارڈ خریدتے ہیں ایزی لوڑ کرواتے ہیں اور ڈیوائسز کا پوچھتے ہیں، مگر گمشدہ اخبار کا احوال نہیں پوچھتے۔ ہفتے کی صبح جناح روڑ کی سڑکوں کو چھانتے چھانتے نظریں بابو پر پڑیں اخبارات کا چھوٹا سا ٹیلا لگائے بمشکل ہی وہاں دس اخبارات ہی نظر آئے۔ کہاں وہ دوکان اور کہاں یہ ٹیلا۔ دوکان بند کیوں کیا؟ سوال ان سے یہی تھا۔ ”اخبارات و کتابوں کی فروخت کم ہو گئی دوکان کا کرایہ زیادہ ہوگیا۔ دونوں وجوہات کاروبار بند کرنے کا سبب بن گئے“۔

جناح روڑ پر واقع کیفِ صادق کسی زمانے میں ادبی، سیاسی، صحافتی نشستیں جمانے، اخبارات کے مطالعے اور خبروں پر تبصرہ کرنے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ پڑھا لکھا طبقہ بیٹھ جاتا تب تک نہیں اٹھتا جب تک موضوعات سے جان نہ چھڑا پاتے۔ مکالمے اور مباحثے ہوتے۔ حقیقی مرکز اخبارات ہوا کرتے تھے۔ لوگ خبریں پڑھتے، ان پر تبصرہ کرتے۔ جناح روڑ کا کیفِ صادق کمرشلائزیشن اور سرمایہ داری کے زیر اثر آیا اور بند ہوا۔ اب یہاں محفلیں نہیں جمتیں۔ اخبارات کا ذائقہ چائے کی بینی خوشبو کے ساتھ اب جناح روڑ پر نظر نہیں آتا۔ اب ہوٹلیں ہیں مگراخبارات کے بغیر۔ اخبارات اور ہوٹلوں کا جو رشتہ ہوا کرتا تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔ہاکرز اخبارات کے لیے آواز نہیں لگاتے اور نہ ہی گاہک اخبارات کا انتظار کرتے ہیں۔

اخبارات اور میگزین کی خریداری کے لیے میزان چوک پر واقع اسٹال مشہور ہوا کرتے تھے کتابیں اس کے علاوہ تھیں۔ مٹن مارکیٹ جب گرایا گیاتو میزان چوک پر واقع اخبارات کے اسٹال بھی اس کی زد میں آگئے۔ نیم شب جب مٹن مارکیٹ گرایا جا رہا تھا تو نوید احمد (مالک نونسوی اسٹال) بھی وہاں موجود تھے۔ ”کئی اسٹال زد میں آئے کتابیں اور میگزین اس کی نذر ہوگئے ہم اسٹال نہ بچا سکے صرف اخبارات، میگزین اور کتابیں بچاپائے“۔

اسٹالوں پر جہاں لوگوں کا جم غفیر لگا رہتا تھا اب وہاں خاموشی ہے۔چند سال قبل نوید کا گزر بسر اخبارات اور میگزین سیہوا کرتا تھا اب اس چھوٹے ٹیلے پر رکھے چند اخبارات اور میگزین سے نہیں ہو پاتا۔ وجہ وہ اسٹالوں کی تباہ حالی اور معلومات و خبری ذرائع کی سوشل میڈیا پر بروقت دستیابی کو بتاتے ہیں۔ جس اسٹال پرپہلے 450 کاپیاں ہوا کرتے تھے اب یہ تعداد فقط 100ہو گئی ہے۔ گھر کا خرچہ نکالنے کے لیے اخبارات کے ساتھ ساتھ مرغیاں بیچتے ہیں۔ میزان چوک پر کھڑے میرا کافی وقت گزر چکا تھا اخبارکا کوئی خریدار نظر نہیں آیا البتہ لوگ پرائز بونڈ کا پوچھتے ہوئے ضرور نظر آئے۔

فتح خان مارکیٹ کے ساتھ شاہ جی اسٹال ہوا کرتا تھا۔ سڑک کو کشادہ کیا جانے لگا تو یہ اسٹال بھی زد میں آیا۔ شاہ جی اسٹال اب عباسی ہوٹل کے کونے میں چھپ کر رہ گیاہے۔ بڑی مشکل سے ڈھونڈنے سے مل جاتا ہے۔ شاہ جی اسٹال کے مالک سید نور احمد شاہ سے میں نے پوچھا کہ اخبارات کا مستقبل کس طرح دیکھ رہے ہیں۔”سوشل میڈیا جس رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اسی رفتار سے اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے“۔

حکومت بلوچستان کی ویب سائیٹ پر موجود اعداد و شمار رجسٹرڈ رروزنامے،، ہفت روزہ، پندرہ روزہ اور ماہانہ اخبارات اور جرائد کی تعداد 325 بتائی جاتی ہے جن میں 153روزنامے ہیں۔بلوچستان سے شائع ہونے والی اخبارات کی بقاء ڈی جی پی آر کے اشتہارت سے وابستہ ہے۔ ملنے والی اشتہارات سرکاری ہوتی ہیں جو ٹینڈر نوٹسز، معلومات، اعلانات اور خالی آسامیوں سے متعلق ہوتے ہیں۔ ڈی جی پی آر سے جاری ہونے والی ان اشتہارات کا بڑا حصہ قومی اور ڈمی اخبارات کے حصے میں چلا جاتا ہے جبکہ وہ مقامی اخبارات جو بلوچستان کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرتے ہیں ان کے نصیب میں اشتہارات کا بہت کم حصہ آتا ہے جن سے بڑی مشکل سے یہ اپنا نظام چلاتے ہیں اور ورکرز کو تنخواہیں جاری کرتے ہیں۔ سرکاری اشتہارات پر انحصار کی ایک بڑی وجہ بلوچستان میں صنعتی نظام کا نہ ہونا بھی گردانا جاتا ہے۔

”انجمن فلاح و بہبود اخبار فروشان“ کوئٹہ کی سطح پر اخبار فروشان کی فلاح و بہبود کے لیے مصروف عمل ہے۔ ڈپٹی جنرل سیکرٹری اللہ گل کے مطابق تنظیم کی باقاعدہ داغ بیل 1978میں ڈالی گئی، روزگار کے حصول کے لیے ان کے والد کو سوراب سے کوئٹہ شفٹ ہونا پڑا تو انہوں نے اخبار فروشی کا شعبہ چنا۔ والد کی وفات کے بعد اللہ گل بھی والد کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ کہتے ہیں،پہلے اخبارات کے ڈپو ہوا کرتے تھے جہاں ٹرین سے اخبارات ان ڈپوؤں کو موصول ہوکر تقسیم ہوا کرتے تھے۔

روزنامہ جنگ کی آمد کے بعد کوئٹہ کی سطح پر اخبار فروشی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اخبارات بڑے پیمانے پر صوبے کے طول و عرض میں جانے لگیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور اخبار مالکان کی عدم توجہی نے حالات تبدیل کیے۔ اب اخبارات کے ریڈر کم ہوگئے ہیں۔اخبارات کی سرکولیشن کے لیے دس سال پہلے کوئٹہ شہر میں 600ہاکرز ہوا کرتے تھے اب 400رہ گئے ہیں۔ اخبارات کی کم سرکولیشن کے حوالے سے کبھی مالکان سے بات ہوتی ہے؟ تو ان کا کہنا ہوتا ہے”اخبار مالکان کواشتہارات سے سروکار ہے اخبارات کی سرکولیشن سے نہیں، اصل مسئلہ ہم اخبار فروشان کا ہے جن کا مستقبل اخبارات کے ساتھ داؤ پر لگا ہوا ہے“۔

اخبارات کے ریڈرز کی ایک بڑی تعداددیہی علاقوں کا ہوا کرتا تھا۔ دیہی علاقوں کو اخبارات کی ترسیل صبح کے کوچز یا جہازوں کے ذریعے ہوا کرتا تھا اخبارات کی ترسیل کے حوالے سے خضدار بلوچستان کا دوسرا بڑا اسٹیشن ہوا کرتا تھا اب ترسیل میں بڑی حد تک کمی آگئی ہے۔ صدر خضدار پریس کلب عبداللہ شاہوانی کا کہنا ہے ”روزنامہ انتخاب جس کی 2500کاپیاں روزانہ بکتی تھیں اب 900کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔

دیگر اخبارات کی بھی یہی پوزیشن ہے“۔ مقامی نامہ نگار کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟ ”نمائندگان پہلے اخباری اشتہارات کے ذریعے کماتے تھے اب یہ سلسلہ بھی کم ہو کر رہ گیا ہے۔ اخباری نمائندگان زیادہ تر وہی ہیں جو صبح کے وقت سرکاری ڈیوٹی نبھاتے ہیں شام کو اخبارات میں کام کرتے ہیں“۔ ان کا کہنا ہے کہ ریڈرز کی بڑی تعداد ان بزرگوں کی ہے اخبارات جن کی زندگی کا اہم جز بن کر رہ گئے ہیں نوجوانوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہے۔

ناشتے کی ٹیبل پر جہاں اخبارات ہوا کرتے تھے اب وہاں اسکرینیں ہی اسکرینیں نظر آتی ہیں،چائے کی چسکی میں ٹویٹس، پوسٹ اور کمنٹس کی خوشبو نظر آتی ہے کاغذ کی خوشبو اب گمشدہ ہے۔اخبارات کے ذائقے بدل گئے یا ریڈرز نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا، میرے خیال میں ذرائع بدل گئے،اب کاغذ کی جگہ اسکرین نے لے لی ہے۔ سوال کاغذی صنعت اور اس سے وابستہ اخبارات کا، کیا وہ اپنامستقبل بچا پائیں گے؟ کیا اخباری اسٹال اپنی رونقیں بحال کر پائیں گے؟ گومگو والی صورت حال ہے۔

میڈیا کے ایک دفتر میں تنخواہوں سے متعلق بحث چل رہی تھی فلاں اینکرپرسن اتنی تنخواہ لے رہا ہے، اس چینل کی یہ موج مستیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سوچ میں پڑ گیا کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے خیالات کہاں تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم ٹیبل اسٹوری میکر بن چکے ہیں ورنہ خبریں بابو، شاہ جی، نوید اور اللہ گل کی تصویریں لیے ہماری منتظر رہتی ہیں۔ چلتے چلتے بس اتنا کہ قاری اور اخبار کا ناطہ سسکیاں لے رہا ہے۔۔۔۔۔