ہر ملک اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے ممالک سے تعلقات رکھتا ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوطی سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے مگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اکثر بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ جسکی وجہ امریکہ کا صرف اپنے مفادات کو ہی اہمیت دینا ہوتا ہے۔
ماضی میں بھی اکثر ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات صرف اپنے مفادات اور مقاصد کو ہی فروغ دینا ہوتا تھا اور پاکستان کو چند ڈالرز کی امداد دے کر اپنے مقاصد پورے کرنے میں کوشاں تھا۔ 9/11 کا واقعہ جب پیش آیا تو امریکہ نے افغانستان میں اپنی گھن گرج دکھانے کیلئے پاکستان کا سہارا لینا چاہا اور پاکستانی حکومت کے ساتھ روابط مضبوط رکھنے کی کوشش میں ڈالرز کی آفرز کی اور پاکستان میں اپنے فوجی اڈے بنائے جسکی بنا پر وہ افغانستان پر حملہ کر سکے۔
اور امریکہ اسی طرح کرتا رہا۔ اسکا مقصد صرف افغانستان پر حملہ نہیں کرنا تھا بلکہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا تھا۔ جسکی بنا ء پر ٹی ٹی پی کے نام سے ایک تنظیم پاکستان میں بنی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کو ختم کرنے کے نام پر معصوم لوگوں پر ڈرون حملے کرتا رہا۔ امریکہ کا مقصد یہی تھا کہ اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان حکومت پر دباو ڈالے اور کہے کہ پاکستان میں بھی دہشتگرد رہتے ہیں اور اس وقت کی حکومت کو امداد دیکر ڈو مور اور کاونٹر ٹیررزم کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتا رہتا۔ پاکستان اسی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے اپنی معیشت اور اپنے 70 ہزار سے زائد لوگ گنوا دیے اور امریکہ ڈو مور کرتا رہا۔
سیاسی نظریے سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی امریکہ کے ساتھ پالیسیسز بہت کمزور تھیں لیکن امریکہ کبھی پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔ پاکستان یہ بات سمجھ چکا تھا کہ امریکہ دہشتگردی کیجنگ میں پاکستان کو جھونک چکا تھا اور پاکستان اس دہشتگردی کا شکار ہوتا گیا اور سب سے بڑی کامیابی پاکستان نے حاصل کی اسی دہشتگردی کے خلاف جسکو امریکہ کی دہشتگردی کا نام بھی دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
امریکہ اب بھی یہی شکایت کرتا پھر رہا ہے کہ پاکستان نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ سرد جنگ اور معیشت کی جنگکی اصطلاح استعمال کی جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت چائنہ اور امریکہ کے درمیان جو معیشت کی جنگ ہے جسے سرد جنگ بھی کہا جاسکتا ہے۔ امریکہ بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ سپر پاور رہنے کیلیے کوششوں میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان اور چائنہ کے تعلقات میں کچھ بگاڑ لا سکے اور سی پیک جیسے منصوبے کوناکام کرسکے جو کہ پاکستان اور چائنہ کے درمیان ایک اہم معاشی منصوبہ ہے۔
اسی سی پیک کی وجہ سے امریکہ پاکستان سے اپنی ناراضگی ظاہر کرتا رہا۔17 سالہ افغانستان کی جنگ جب امریکہ کے گلے کی ہڈی بن گئی اور بری شکست سے دو چار ہونے لگا تو پاکستان سے مدد طلب کرنے لگا کہ طالبان سے میری جان چھڑانے میں مدد کرو۔ پاکستان میں نئی قیادت نے جب کمان سنبھالی تو امریکہ ترلے کرتا رہا کہ امن مذاکرات میں ہماری مدد کرو طالبان کے ساتھ اور ہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر اور مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
حالیہ امریکی دورے پر جب پاکستان کا وزیر اعظم عمران خان گیا تو امریکہ نے پاکستان کی نئی قیادت سے متاثر ہوتے ہوئے اپنے تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کی بات کی اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث بننے کی بھی پیشکش کی۔ جب صدر ٹرمپ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں بھی پاکستان کے کردار کو سراہا اور افغانستان سے انخلا کی بھی بات کی۔
خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کیلیے اب امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہ رہا ہے اور بہ ہر صورت وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنا چاہ رہا ہے اور پاکستان کی نئی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے ایک نئے دور کا آغاز کرنا چاہ رہا ہے۔ اور پاکستان نے بھی دو ٹوک اور کھرے الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ پاکستان ماضی کی غلطیاں نہ دہراتے ہوئے امریکہ کے کسی بھی جنگی معاملات کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس نئے دور اور نئے حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور امریکہ کی دونوں قیادتیں اس بات پر متفق اور مطمئن تھیں کہ پاک امریکہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے اور خطے میں امن قائم کرنے کیلیے پاکستان اور امریکہ مثبت کردار ہی ادا کر سکتے ہیں۔